
کاٹن مارکیٹ میں کاروباری حجم کم رہا جس کی وجہ کاٹن جنرز کے پاس غیر فروخت شدہ سٹاک کا محدود ہونا ہے PCGAکی 18فروری کو جاری اعداد و شمار رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں کاٹن جنرز کے پاس صرف ایک لاکھ 24ہزار غیر فروخت شدہ سٹاک موجود ہے پاکستان کی کھپت اور ڈیمانڈ کے سامنے یہ سٹاک بہت ناکافی ہے پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ماہانہ 14لاکھ گانٹھ درکار ہوتی ہے جبکہ 18فروری کو جنرز کے پاس ایک لاکھ 24ہزار گانٹھ کا نہ ہونے کے برابر سٹاک ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ملوں کی اکثریت کاٹن امپورٹ کر رہی ہے پاکستان اس وقت امریکی کاٹن کے تین بڑے خریداروں میں شامل ہے اور امریکہ سے آنے والے ہر مال بردار بحری جہاز پر کاٹن کی گانٹھوں سے لدے کنٹینرز زیادہ ہیں جبکہ برازیل۔ایسٹ افریقہ۔ارجنٹائن سے بھی کاٹن پاکستان امپورٹ ہو رہی ہے .
پاکستان کی مقامی کاٹن مارکیٹ اب ڈیمانڈ اینڈ سپلائی فیکٹر پر کھڑی ہے کے سی اے سپاٹ ریٹ 20100پر موجود ہے گذشتہ ہفتہ اس میں صرف 100روپیے کی معمولی کمی ہوئی ہے یاد رہے کہ پاکستان بننے کے بعد کے سی اے پہلی دفعہ 20ہزار پلس ہوا ہے جو ایک ریکارڈ ہے .
پاکستان کی کاٹن مارکیٹ میں اس مضبوط ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے کاشتکار بھی متحرک ہیں اور زیریں سندہ اور اپر پنجاب کے کئی علاقوں میں کپاس کی کاشت شروع ہو گئی ہے اس سال ریکارڈ رقبہ پر کپاس کاشت متوقع ہے اور کپاس پاکستان کے چاروں صوبوں میں کاشت ہوگی
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ضرورت کے مطابق کپاس کا بیج۔اور پیسٹی سائیڈ موجود ہے اس پر وزارت زراعت قومی اور صوبائی کو دیکھنا چاہیے .
پاکستان میں کپاس کی کاشت بہت مہنگا کام ہے اور اگر کاشت کار کو معیاری سیڈ نہ ملا تو اس کا نقصان ملکی زراعت کو اٹھانا ہو گا اس لئے تمام متعلقہ محکمے اس بات کو ممکن بنائیں کے کاشت کار کو معیاری سیڈ ملے
کاشتکاروں کا مطالبہ ہے کہ جس طرح کچھ کیمیکل اور دیگر چیزیں انڈیا سے ٹریڈ بند ہونے کے باوجود منگوائے جا رہے ہیں اسی طرح کپاس کا معیاری بیج بھی انڈیا سے امپورٹ کیا جائے
اس پر غور ہونا ضروری ہے پاکستان کو کپاس کی بڑی فصل درکار ہے تاکہ ملکی ضرورت زیادہ سے زیادہ پوری ہو اور کم سے کم کاٹن امپورٹ کرنا پڑے رواں سیزن بھی کم ازکم 50لاکھ گانٹھ منگوانا پڑ رہی ہے جس پر زرمبادلہ کے قیمتی ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں.
Leave a Comment