این اے193:جعفرلغاری کی خالی نشست خاندانی چپقلش کاسبب بن گئی - Baithak News

این اے193:جعفرلغاری کی خالی نشست خاندانی چپقلش کاسبب بن گئی

ملتان(بیٹھک سپیشل: معظم محمود عباس) بزرگ سیاستدان محمد جعفر لغاری کی وفات سے خالی ہونے والی سیٹ پر لغاری خاندان آپس میں معرکہ ارائی میں مصروف ہے کوئی اور بات شروع کرنے سے پہلے سابقہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں ضلع راجن کی یہ سیٹ تحصیل جام پور داجل فاضل پور محمد پور ہڑند ٹبی لُنڈان کوٹلہ مغلاں لعل گڑھ حاجی پور لنڈی سیداں حاجی پور جیسے قابل ذکر قصبوں پر مشتمل ہے اصولی طور اس حلقے کے الیکٹیبل محمد جعفر خان لغاری ہی رہے ہیں اویس احمد خان لغاری، میاں محمد شہباز شریف، شیر علی گورچانی، محمد جعفر خان لغاری کی ونگ بن کر الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئے۔ 2018 کے الیکشن میں شیر علی گورچانی کی راہیں محمد جعفر خان لغاری سے جدا ہوگئیں جس کی وجہ محمد جعفر لغاری کی پی ٹی آئی میں شمولیت تھی عین مو قع پر شیر علی گورچانی ن لیگ کی ٹکٹ واپس کر کے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر محمد جعفر لغاری اور محمد حسن لغاری سے ہار گئے چیف لغاری جمال احمد اور ان کے بھائی کو ن لیگ کی وجہ سے اپنے چچا کی مخالفت کرنا پڑی ان کی وفات پر تمام خاندان اکھٹا تو ہوا مگر دستار بندی پر اختلاف ہوگیا۔ مینا جعفر لغاری نے محمد محسن لغاری کو اپنے خاوند کا سیاسی جانشین قرار دے کر ان کی دستار بندی کی جب کہ چیف لغاری نے محمد جعفر لغاری کے حقیقی بھتیجے محمد یوسف لغاری کی دستار بندی کی مینا جعفر اور ان کی بیٹی گل فاطمہ امریکن شہری ہونے کی وجہ سے اور محمد یوسف لغاری برطانوی شہریت کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ۔مینا جعفر خان لغاری محمد محسن لغاری جو کہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں کی بھر پور انتخابی مہم چلارہی ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری اویس احمد خان لغاری اپنے لاؤ لشکر سمیت اپنے بیٹے عمار اویس لغاری جو کہ ن لیگ کے امیدوار ہیں کی مہم چلا رہے اس حلقے میں سب سے بڑی ڈویلپمنٹ تیسرے امیدوار اختر حسن گورچانیکی انٹری ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں اور شیر علی گورچانی کے چچا ہیں اختر حسن گورچانی پولیس سروس کے سابق آئی جی ہیں ان کےبیٹے اطہر حسن گورچانی اسی حلقے کے ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں اختر حسن گورچانی کی شہرت اپنے علاقے میں بہت اچھی ہے انہوں نے علاقے کے کافی لوگوں کی ملازمین حاصل کرنے میں بھر پور مدد کی علاقے کے لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں اور مالی امداد بھی کرتے ہیں میری معلومات کے مطابق اس حلقے میں نظریاتی ووٹ جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے گزشتہ الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکن شازیہ عابد نے 27771 ووٹ حاصل کیئے تھے اس کے علاؤہ فیض خان کورائی، لُنڈ اتحاد کے شبیر لُنڈ حماد سیف قاضی مرزا ہمایوں ایسی شخصیات ہیں جو کنگ میکر اور ووٹ بنک کی حیثیت رکھتی ہیں داجل کے ندیم جیلانی بھی اسی زمرے میں آتے ہیں اس حلقے میں باقی ووٹ لغاری گورچانی دریشک لُنڈ ووٹ شمار ہوتا ہے موجود صورتحال میں شبیر لُنڈ اور قاضی حماد سیف عمار اویس کے ساتھ ہیں جبکہ شیر علی رات دن لغاری سرداروں کے شانہ بشانہ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔دوسری طرف فیض کورائی اور ہمایوں مرزا مینا جعفر لغاری دریشک سرداروں کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کے امیدوار کی مہم چلا رہے ہیں۔لوگوں کو محمد جعفر لغاری کی بیوہ سے ہمدردی ہے ان کے خاوند کے گروپ کا کوئی قابل ذکر آدمی دوسرے گروپ میں شامل نہیں ہوا البتہ پچادھ گورچانی تمن کا ووٹ تقسیم ہوا ہے داجل کے ندیم گیلانی نے اختر حسن گورچانی کا ساتھ دے کر ان پوزیشن مضبوط کی ہے نصر اللہ خان ترین جو پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ ورکر ہیں اور ووٹ بنک رکھتے ہیں۔دامے درمے سخنے اختر حسن گورچانی کا ساتھ دے رہے ہیں حلقے میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں جس کا سارا اثر مسلم لیگ ن پر پڑا ہے ایک طرف مہنگائی دوسری طرف خاص طور پر کامریڈ رؤف لُنڈ کی گرفتاری نے لغاری سرداروں کی انتخابی مہم پر بہت بڑا اثر ڈالا ہے تاہم امیدواروں اور ان کے حامیوں کی طرف سے اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کئےجاتے ہیں۔ جائزے کے مطابق پی ٹی آئی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے تاہم سیاست میں کوئی بات حتمی اور آخری نہیں ہوتی۔

مزید جانیں

مزید پڑھیں
بی زیڈ یو

بی زیڈ یو کے مالی معاملات،حکومتی نمائندوں سے کرانے پر اتفاق

ملتان ( خصوصی رپورٹر,بی زیڈ یو )بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کا اجلاس زیرصدارت پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی منعقد ہوا۔ اجلاسمیں سینڈیکیٹ ممبران جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم سابق وائس چانسلر علامہ اقبال مزید پڑھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں