بھارتی سورماؤں کی سفاکیت،غیرمقامیوں کی آبادکاری، کشمیریوں کی املاک الاٹ - Baithak News

بھارتی سورماؤں کی سفاکیت،غیرمقامیوں کی آبادکاری، کشمیریوں کی املاک الاٹ

جاری ہیں۔بھارت کے ان تمام اقدامات میں سے کسی ایک نے بھی بین الاقوامی توجہ حاصل نہیں کی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے جس چیز کی مذمت کی گئی ہے وہ کشمیر کے میڈیا کی خاموشی، بغاوت اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت صحافیوں کی گرفتاری اور دھمکی کا ماحول ہے جو خاص طور پر 2020 کی نئی، سخت میڈیا پالیسی کے تناظر میں پیدا ہوا ہے۔ فروری 2022 میں، ہیومن رائٹس واچ نے آزاد میڈیا پر شدید کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیے جانے، دھمکیاں دینے اور ان کے خلاف کارروائیوں کو قلم بند کیا۔ ستمبر 2022 میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میڈیا پر پابندیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر بڑے پیمانے پر پابندیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا یہاں تک کہ کشمیر پریس کلب کو بند کرنے کا تذکرہ کیا۔بی جے پی حکومت جموں و کشمیر میں حتمی انتخابات کا مرحلہ طے کرنے کے لیے شدید جبر، (ڈیموگریفک) آبادیاتی تبدیلیوں اور انتخابی نقشے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا مقصد اگست 2019 کی اپنی کارروائی کو مستحکم اور جائز اور دہلی کو یہ دعویٰ کرنے کے قابل بنانا ہے کہ جموں و کشمیر کی صورتحال معمول پر آ گئی ہے تاہم اس منصوبے کی حمایت کے لیے بھارت نواز کشمیری رہنماؤں تک کو آمادہ کرنے اور ان کو اس میں شامل کرنے کی اس کی کوششیں ناکام ہو گئیں ہیں۔ حد بندی کے منصوبے اور ووٹنگ کے نئے قوانین کے خلاف کشمیریوں کی زبردست مخالفت کے پیش نظر، یہ دیکھنا مشکل ہے کہ انتخابات کیسے کرائے جاسکتے ہیں، اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ قابل اعتبار ہوں گے۔ دہلی کی طاقت اور دھوکہ دہی کی پالیسیاں کشمیر میں طویل عرصے سے ناکام رہی ہیں اور اس نے صرف کشمیری لوگوں کی بیگانگی کو مزید گہرا کیا ہے اور قبضے کے خلاف مزاحمت کے ان کے عزم کو مضبوط کیا ہے۔2022 میں ہندوستان کی جانب سے کشمیر کی ڈیموگریفی کو نئی شکل دیکر کشمیری ثقافت، زبان اور مذہبی شناخت کو منظم طریقے سے ختم کرکے کشمیر کی مسلم آبادی کو بے اختیار کرنے کی حکمت عملی
کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط ، نئے زمینی قوانین متعارف ، مقامی عوام سے زمینیں چھین کر غیر مقامیوں کو دیدیں، صحافیوں کو جیلوں میں ڈال کر میڈیا خاموش کرا دیا یا سفری پابندیاںعائد
ماورائے عدالت قتل اور تشدد سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری، کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت نظربند ،مزید نیم فوجی دستے دنیا کے سب سے زیادہ ملٹرائزڈ علاقےروانہ
کشمیر جیسی ظلم و جبر کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں اور نظر آئے، 5 اگست 2019 کو دہلی کی یکطرفہ کارروائی، جموں و کشمیر سے غیرقانونی الحاق کشمیر کی تشدد زدہ تاریخ کا ایک اور وحشیانہ باب
ملتان (بیٹھک سپیشل ڈاکٹر ملیحہ لودھی)مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی زندگی کا ہر پہلو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے حملوں کی زد میں ہے۔سال 2022 میں ہندوستان کی جانب سے ایسے اقدامات دیکھنے میں آئے جن کا مقصد کشمیر کی ڈیموگریفی (آبادیاتی منظر نامے) کو نئی شکل دے کر اور کشمیری ثقافت، زبان اور مذہبی شناخت کو منظم طریقے سے ختم کرکے کشمیر کی مسلم آبادی کو بے اختیار کرنا تھا۔ کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں اور نئے زمینی قوانین متعارف کرائے گئے جن کے ذریعے مقامی لوگوں سے زمینیں چھین کر غیر مقامیوں کو دیدی گئیں۔ میڈیا کو خاموش کر دیا گیا ہے صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے اور انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ ماورائے عدالت قتل اور تشدد سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور کل جماعتی حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کی پوری قیادت نظربند ہے۔ مزید نیم فوجی دستوں کو دنیا کے سب سے زیادہ ملٹرائزڈ علاقے میں بھیجا کیا گیا۔کشمیر جیسی ظلم و جبر کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں اور نظر آئے۔ پھر بھی اس سنگین صورتحال پر وہ ممالک خاموش ہیں جو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دریں اثنا، کشمیر میں ہونے والے اس ظلم وجبر کو بے نقاب کرنے کے لیے پاکستان کی بین الاقوامی مہم اندرون ملک متعدد بحرانوں کی وجہ سے اس قدر موثر نہیں رہی کیونکہ اسلام آباد کی کشمیر ڈپلومیسی اب صرف اقوام متحدہ کو خطوط بھیجنے تک محدود ہو چکی ہے۔اگرچہ مقبوضہ علاقے نے 7دہائیوں سے پرتشدد جبر دیکھا ہے، لیکن 5 اگست 2019 کو دہلی کی یکطرفہ کارروائی نے کشمیر کی تشدد زدہ تاریخ کا ایک اور وحشیانہ باب کھولا۔ بھارتی حکومت نے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کر لیا، اسے تقسیم کر دیا اور اسے بھارتی یونین میں ضم کر دیا۔ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کشمیر پر 11 قراردادیں ہیں۔ خاص طور پر، یہ یو این ایس سی کی قرارداد 38 کی خلاف ورزی تھی، جس کے پیرا 2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تنازعہ کا کوئی بھی فریق کشمیر کی صورت حال میں مادی تبدیلی نہیں لا سکتا۔طویل لاک ڈاؤن اور مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ کر دیا گیا، فوجی محاصرہ سخت کر دیا گیا، عوامی اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی، پریس کو خاموش کر دیا گیا اور کشمیری رہنماؤں بشمول دہلی نواز سیاست دانوں کو اس اقدام کے خلاف عوامی بغاوت کو روکنے کے لیے جیلوں میں بند کر دیا گیا جس نے کشمیری عوام کو تقریباً ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا۔تب سے، بی جے پی حکومت نے کشمیریوں کو طاقت اور حق رائے دہی سے محروم کرنے اور کشمیر کی مسلم شناخت کو تبدیل کرنے کے لیے کئی انتظامی، ڈیموگریفک (آبادیاتی) اور انتخابی اقدامات اٹھائے جن میں سے متعدد اقدامات مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی آبادکاری کی پالیسیوں کی ہوبہو نقل ہیں۔ مئی 2022 میں، ہندوستان کے حد بندی کمیشن نے نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد جموں کو زیادہ نمائندگی دینا ہے تاکہ جموں و کشمیر اسمبلی میں مسلمانوں کے سیاسی طاقت کو کم کیا جا سکے اور توازن کو ہندوؤں کی طرف منتقل کیا جا سکے۔ مسلمان جموں و کشمیر کی آبادی کا 68 فیصد سے زیادہ ہیں جبکہ (آخری) 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندو 28 فیصد کے قریب ہیں۔ بی جے پی حکومت حد بندی کے منصوبے کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔دہلی کی طرف سے متعارف کرائے گئے نئے ڈومیسائل قوانین کے ذریعے ڈیموگریفک(آبادیاتی) تبدیلیوں کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ غیر کشمیریوں کو 3.4 ملین سے زیادہ نام نہاد ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں، جو 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد ووٹ ڈالنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ جولائی 2022 میں، مقبوضہ وادی میں خطے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی کوشش میں چیف الیکشن آفیسر نے کسی بھی ہندوستانی شہری کو، یہاں تک کہ عارضی رہائشیوں کو ووٹنگ کا حق دینے کا اعلان کیا۔ اس سے تقریباً 25 لاکھ اضافی ووٹرز، جن میں غیر مقامی بھی شامل ہیں انتخابی فہرستوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اس طرح ووٹرز کی مجموعی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ حد بندی کے منصوبے کی طرح اس اعلان نے بھی کشمیر میں غصہ اور ناراضگی کو ہوا دی ہے۔ اے پی ایچ سی کے رہنماوں کے ساتھ ساتھ بھارت کے حامی سابق وزرائے اعلیٰ اور سیاست دانوں نے بھی مذمت کی۔ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کا کہنا ہے کہ غیر مقامی لوگوں کی شمولیت جموں و کشمیر کے لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی ایک واضح چال ہے۔اس سب کے باوجود مودی حکومت کو آگے بڑھنے سے نہیں روکا جا سکا۔ مودی حکومت کے اقدامات صرف انتخابی مہم جوئی تک محدود نہیں ہیں۔ پچھلے سال، بی جے پی حکام نے جموں و کشمیر وقف بورڈ اور اسی طرح پورے خطے میں اس کی تمام جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کے لیے مذہبی اہمیت کے حامل تمام نمایاں مقامات بشمول مزارات کو اپنے کنٹرول میں لینے کی مہم کا حصہ ہے۔ مذہبی رہنماؤں اور اسلامی اسکالرز کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور کشمیر بھر کی کئی مساجد میں نماز پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ 2019 میں کالعدم جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں حکام نے حال ہی میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں ضبط کی ہیں۔ اس میں ایک گھر بھی شامل ہے جو کبھی مشہور حریت رہنما سید علی گیلانی کا تھا، جن کی 2021 میں مناسب تدفین سے بھی انکار کر دیا گیا تھا۔کشمیری ثقافت پر بی جے پی کے حملے میں اردو کی حیثیت کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔ 100 سال سے زیادہ عرصے تک، اردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان تھی لیکن 2020 میں، اردو کی خصوصی حیثیت کو قانون سازی کے ذریعے ختم کر دیا گیا جس کے بعد جموں و کشمیر میں اردو اور انگریزی کے علاوہ ہندی، کشمیری اور ڈوگری کو سرکاری زبانیں بنا دیا دیا۔ اب کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے دیوناگری رسم الخط میں تبدیل کرنے کی کوششیں

مزید جانیں

مزید پڑھیں
بی زیڈ یو

بی زیڈ یو کے مالی معاملات،حکومتی نمائندوں سے کرانے پر اتفاق

ملتان ( خصوصی رپورٹر,بی زیڈ یو )بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کا اجلاس زیرصدارت پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی منعقد ہوا۔ اجلاسمیں سینڈیکیٹ ممبران جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم سابق وائس چانسلر علامہ اقبال مزید پڑھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں