لاہور: لاہور کی احتساب عدالت نے جنگ جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن اور تین دہائیوں سے زائد عرصہ قبل ہونے والے جائیداد کے لین دین سے متعلق کیس میں نامزد تمام ملزمان کو بری کر دیا۔
احتساب عدالت نے ملزمان پر الزامات ثابت نہ ہونے پر انہیں بے گناہ قرار دیا۔
گزشتہ سماعت کے دوران میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز نے اپنے موکل کی بریت کے لیے دفعہ 265-k کے تحت عدالت میں درخواست جمع کرائی تھی۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کو بری کیا جائے کیونکہ ان کے خلاف پیش کیے گئے شواہد میں کچھ نہیں تھا۔
آج کی سماعت کے آغاز پر احتساب عدالت کے جج نے میر شکیل الرحمان اور مقدمے میں نامزد دیگر تمام ملزمان کو بری کردیا۔
عدالت نے رحمان کی تمام ضبط شدہ جائیدادوں کو رہا کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نومبر 2020 میں سپریم کورٹ نے رحمان کی ضمانت منظور کی تھی جو 8 ماہ تک قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست میں رہے۔
مسلہ
نیب نے 1986 میں نجی اراضی کے مالکان کے ساتھ ہونے والی پراپرٹی ڈیل پر ریفرنس دائر کیا تھا، اس خریداری کی بنیاد پر اینٹی گرافٹ باڈی نے میر شکیل الرحمان کو 5 مارچ 2020 کو طلب کیا تھا۔
ایڈیٹر انچیف نے زمین کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا۔ تاہم نیب نے انہیں 12 مارچ کو دوبارہ طلب کر کے گرفتار کر لیا تھا۔
آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران ان کی گرفتاری غیر ضروری تھی کیونکہ نیب قانون انکوائری کے دوران کسی تاجر کی گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ زمین لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے قواعد و ضوابط کے مطابق، مجاز حکام کی باضابطہ منظوری کے ساتھ، اور اس وقت کی ایل ڈی اے کی استثنیٰ کی پالیسی کے مطابق الاٹ کی گئی تھی۔
تمام ادائیگیاں دیگر تمام الاٹیوں کی طرح حکومت کے منظور شدہ نرخوں کے مطابق کی گئیں۔ اس سارے عمل میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور نہ ہی قومی خزانے کو کوئی نقصان پہنچا۔
ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیا گیا تھا۔ سابق ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں فیض اور میاں بشیر احمد کو بھی اینٹی گرافٹ باڈی نے مقدمے میں نامزد کیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں دو درخواستیں دائر کی گئیں، ایک میر شکیل الرحمان کی ضمانت اور دوسری ان کی بریت کے لیے۔ درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے صحیح وقت پر ایک بار پھر رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔
8 جولائی کو، LHC کے ایک ڈویژن بنچ نے رحمان کی گرفتاری کے بعد ان کی ضمانت کی درخواست خارج کر دی تھی۔
بعد ازاں ایڈیٹر انچیف نے 11 ستمبر کو سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کی جس میں استدلال کیا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر انہیں ضمانت دی جائے۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے رحمان کی درخواست ضمانت کی سماعت کی۔