دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

  • Home
  • ملتان
  • دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے ہم سننا نہیں چاہتے۔ اسے ہم اپنی زندگی سے باہر نکال کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔ہم زندگی میںکبھی ناکام نہیں ہونا چاہتے۔ ہم صرف ایک ہی چیز چاہتے ہیں اور وہ ہے کامیابی،کامیابی۔ شاید آپ میری بات سے اختلاف کریںگے لیکن سچ یہ ہے کہ زندگی میں ناکام ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ زندگی میں کبھی فیل نہیں ہوتے تو آپ نے زندگی میںکبھی کوئی بڑا رسک نہیں لیا ہے۔ اگر آپ کبھی ناکام نہیں ہوئے تو آپ نے کبھی کچھ نیا ٹرائی ہی نہیں کیا ہے۔ کوئی بھی اسوقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس نے زندگی میں رسک نہ لیا ہو۔ اس لئے ناکام ہونا بہت ضروری ہے۔ناکامی، کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ اگر آپ پہلی سیڑھی ہی نہیں چڑھیں گے تو آپ اوپر کیسے جائیں گے۔ بس آپ کو صرف ایک کام کرنا ہے اور وہ ہے کہ ہمت نہیں ہارنی۔ آہستہ مگر مسلسل منزل کی تالش میں لگے رہنا چاہیے۔ زندگی سب کو یکساں مواقع دیتی ہے۔آپ بالی ووڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن کو تو جانتے ہی ہوں گے۔ ان سے ہمارے نظریاتی اختالفات ہو سکتے ہیں لیکن یہ ہمارے لئے کامیابی کی عمدہ مثال ہیں۔ انہوں نے جب اپنے کیریئر کی شروعات کی تو ان کی پہلی 12 فلمیں فالپ ہو گئیں تھیں۔یہ بچپن میں اخبار بیچا کرتے تھے۔ صرف ایک رینک سے ان کا انڈین ایئر فورس میں پائلٹ بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ آل انڈیا ریڈیو نے انہیں جاب دینے سے انکار کر دیا کہ ان کی آواز بہت بھاری ہے۔ اور پھر وقت نے کروٹ بدلی اور وہی بھاری آواز ان کی پہچان بن گئی۔ یہ ہار مان کر بیٹھ سکتے تھے لیکن انہوں نے انفرادی طور پر اپنی جدوجہد جاری رکھی اور کامیابی کی عمدہ مثال بن گئے۔ تاریخ میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جو زندگی میں ہر موڑ پر فیل ہوا ہے۔ اس کا نام ہے ابراہم لنکن۔ یہ امریکا کے 16ویںصدر تھے۔ ابراہم لنکن اپنی پوری زندگی میں صرف 5 سال پڑھے ہیں۔ یہ اپنی زندگی میں 12 بار ایسے موڑ پر ناکام ہوئے جب آدمی کہتا ہے بس اب اور نہیں۔22 برس کی عمر میں ان کا کاروبار ناکام ہوا۔23 برس کی عمر میں ریاست کے قانون دان کے طور پر شکست ہوئی۔25 برس کی عمر میں پھر کاروبار میں ناکام ہوئے۔26 برس کی عمر میں ان کی محبوبہ کا انتقال ہوا تو یہ انتہائی صدمہ سے دوچار ہوا لیکن مضبوط رہا۔29 برس کی عمر میں اسپیکر کے انتخاب کے لیے ناکام ہوا۔34 برس کی عمر میں کانگریس کی امیدواری سے محروم ہوا۔37 برس کی عمر میں یہ بآلخر کانگریس میں منتخب ہو گئے۔39 برس کی عمر میں دوبارہ نامزدگی میں ناکام ہوئے۔46 برس کی عمر میں سینٹ کے لیے ناکام ہوئے۔47 برس کی عمر میں امریکا کے نائب صدر کے انتخاب میں شکست ہوئی۔49 برس کی عمر میں پھر سینٹ کے انتخابات میں ناکام ہوئے۔لیکن کامیابی کے پیچھے دوڑنے کے بعد بآلخر انہوں نے کامیابی کو دبوچ ہی لیا اور 51 برس کی عمر میں امریکا کے 16ویںصدر منتخب ہوگئے۔ دنیا میں کسی کی بھی محنت ضائع نہیں ہوتی۔علی بابا کے بانی جیک ما کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ یہ دنیا کی بااثر اور امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔ اس نے بھی اپنی کامیابی کی قیمت چکائی ہے۔ لیکن کامیابی کی قیمت کیا ہے؟ کامیابی کی قیمت ہے “ناکامی”۔ جیک ما کو لگاتار 30 انٹرویوزمیں سے ریجیکٹ کر دیا گیا تھا۔ ایک بار انہوں نے کے ایف سی میں جاب کے لئے اپالئی کیا تو 24 میں سے 23 لوگ سلیکٹ ہوگئے اور جس کو ریجیکٹ کیا گیا وہ جیک ما تھا۔ یہ سکول میں تین دفعہ فیل ہوئے۔ انہوں نے 10 مرتبہ کوشش کی کہ ان کا ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ ہو جائے لیکن ہر بار ناکام رہے۔ ایک دفعہ پولیس میں بھرتی ہونے کے لئے 5 لوگوں نے انٹرویو دیا ان 5 میں سے 4 لوگ سلیکٹ ہوگئے اور جو سلیکٹ نہیں ہوسکا وہ تھا جیک ما۔ کیا آپ نے بھی کبھی زندگی میں اتنی زیادہ ناکامیوں کا سامنا کیا ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔آپ ناکام ہوتے ہیں بلکہ ہم سب ناکام ہوتے ہیں۔ آپ ناکام ہونا بند کردیں میں یہ بھی نہیں کہوں گا لیکن ناکام ہونے کے بعد مضبوط رہنا اور آگے بڑھتے رہنا دلیری یہ ہے۔ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیئے۔ بس اپنے نظریے کو مضبوط رکھیے۔ کیونکہ آپ کی نظر کا عالج تو ڈاکٹر کر دے گا مگر آپ کے نظریے کا عالج نہیں کر پائے گا۔تھامس ایڈیسن بلب بنانے سے پہلے ایک ہزار سے زائد بار فیل ہوچکے تھے، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اتنی بار ناکام ہوئے توآپ کو موٹیویشن آئی کہاں سے؟ انہوں نے کہا میں فیل ہوا کہاں، بلکہ میں نے ہزار ایسے طریقے سیکھے جن سے بلب نہیں بنایاجاسکتا۔ ایک دن تھامس ایڈیسن اپنی والدہ کے پاس آئے اور انہیں اپنی ٹیچر کا خط دیا، والدہ نے خط پڑھا اور رونے لگی، ایڈیسن نے والدہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو پوچھا کیا ہوا؟ والدہ نے خط اونچی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا جس میں لکھا ہو تھا کہ آپ کا بچہ بہت ذہین ہے اس کو ہم سکول میں نہیں پڑھا سکتے اس کو کسی اچھے سکول میں ڈالو کہ یہ ضائع نہ ہو جائے، جب تھامس ایڈیسن کی ماں وفات پاچکی تھی تو اسے الماری سے ایک خط مال، اس نے وہ خط پڑھا جس میں لکھا ہو تھا کہ آپ کا بچہ بیمار ہے اور ذہنی بیماری کا شکار ہے مہربانی کرکے اسے سکول نہ بھیجئے گا۔اگر تھامس ایڈیسن یہ خط پڑھ کر دلبرداشتہ ہوجاتا تو شاید آپ اور میں آج اندھیرے میں بیٹھے ہوتے، لیکن جنہیں کچھ کرنا ہے ۔
ہمیشہ اپنی منزل کی جانب دیکھتے رہتے ہیں چاہے راستے میں جتنی بھی مشکاالت کیوں نہ آئیں۔اسی طرح البرٹ آئنسٹائن نے 4 سال کی عمر میں بولنا شروع کیا،اسے سکول سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ یہ زندگی میں کچھ نہیں کر پائے گا، لیکن ایک وقت آیا پھر وہ دنیا کا سب سے ذہین آدمی بنا اور انہیں 1921 میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔اکثر لوگ اپنی ناکامی کی وجہ غربت کو قرار دیتے ہیں،ہم غریب ہیں تو ہم کچھ نہیں کر سکتے، حسین شاہ جو ایک دور میںپاکستان کے سب سے بڑے باکسر تھے، وہ الوارث تھے اور فٹ پاتھ پر سوتے تھے، بچپن سے ہی مزدوری کرنے لگے، ایک دفعہ جب مزدوری کر کے واپس آرہے تھے تو کچھ بچوں نے اس سے پیسے کھینچ لئے، پھر انہیں لگا کہ انہیں لڑنا چاہئیے تھا،وہ کسی لوکل باکسنگ کلب میں چلے گئے اور باکسنگ کرنے لگے، واپس پھر رات کو فٹ پاتھ پر آ کر سو جاتے، وقت گزرتا گیااور وہ باکسنگ کے ایک اچھے پلیئر بن گئے، پھر ایک بار انہیں ساو¿تھ ایشین گیمز میں کھیلنے کا موقع مال، ساو¿تھ ایشین گیمزمیں اب تک کوئی بھی باکسر پاکستان کی طرف سے میڈل نہ جیت سکا تھا، غربت کی وجہ سے حسین شاہ بغیر جوتوں کے رنگ میں اترے اور حریف کو چاروں شانوں چت کر دیا، یونہی اس کا سفر چلتا رہا اور وہ ہر سال ساو¿تھ ایشین گیمز میں میڈلز جیتے رہے، پھر ایک وقت آیا جب حکومت نے ا±نہیں اولمپکس میں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جنوبی ایشیا سے کوئی بھی باکسر اب تک اولمپکس میں میڈل نہ جیت سکا تھا، لیکن حسین شاہ نے پہلی بار اپنی صالحیتوں سے برانز میڈل جیتا، حکومت کی طرف سے انہیں 20 ہزار روپے اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، اور ایک پالٹ بھی دیا گیا، لیکن شاید قدرت نے ابھی ان کا اور امتحان لینا تھا، ان کا پالٹ اور ان کا نقد انعام کرپشن کی زد ہو گیا اور ان کے میڈلز کی بھی کوئی قیمت دینے کو تیار نہیں تھا، انہوں نے ایک بار پھر مزدوری شروع کر دی، لیکن ہمت نہیں ہاری، اس کے بعد یہ لندن چلے اور وہاں پر باکسنگ شروع کر دی اور اب یہ جاپان میں ہوتے ہیں جہاں وہ کوچ ہیں۔اسٹیو جابز کو اس کے والدین نے یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ ہمیں لڑکا نہیں لڑکی چاہیے، اسٹیو جابز کو ایک غریب شادی شدہ جوڑے کے حوالے کر دیا گیا، غربت کی وجہ سے ان کا سکول چھڑوا دیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کمپنی بناڈالی جس کا ایپل تھا، یہ کمپنی کامیاب ہوگئی لیکن اسٹیو جابز کو اپنی ہی کمپنی سے نکال دیا گیا، انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور 2 نئی کمپنیاں بناڈالیں جو بعد میں ایپل نے خرید لیں اور اسٹیو جابز ایک بار پھر ایپل کے سی ای او بن گئے، ایک وقت تھا کہ ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تھا وہ دوستوں کے ساتھ رہتے ہیں لیکن انہیں ناکامی کا خوف نہیںتھا۔ ہمارے ارد گرد اور دنیا میں اور بھی بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور ناکامی کے ڈر کو اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ یہ کچھ ایسی کہانیاں تھیں جو ضروری ہوتی ہیں کسی اور کے لئے نہیں بلکہ خود کے لئے، تاکہ ہم جاگتے رہیں اور ہمیں یاد رہے کہ ہم نے آسمانوں پر پرواز کرنی ہے کیونکہ ہم اقبال کے شاہین ہیں، زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو خود سامنے آکر زمہ داری لیں، دوسروں پر انحصار مت کریں۔ زندگی یہ نہیں ہے کہ جو آپ کو ملتی ہے زندگی یہ ہے جو آپ خود بناتے ہیں۔ اس چوہے اور بلی کی دوڑ میں اگر آپ جیت بھی جائیں گے تو آپ پھر بھی چوہے ہی رہیں گے، اس لئے زندگی میں ناکام ضرور ہوں مگر ناامید نہ ہوو¿، اپنے رب اور اپنی محنت پر بھروسہ رکھنا چاہئیے اور آہستہ مگر مسلسل جدوجہد کرنی چاہیئے، صبر و ہمت اور عزم واستقالل کے ساتھ رہنا چاہیئے۔
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

Leave a Comment
×

Hello!

Click one of our contacts below to chat on WhatsApp

× How can I help you?