رنگیلے پلنگ کے رنگیلے پائے

پیر مشتاق رضوی

ایک صدی گزرنے کے بعد جام پور میں فن اور ثقافت کا شاندار اظہار رنگیلے پلنگ کے رنگیل پائے آئے ابھی تک اُسی شاندار ماضی کو ایمانداری اور ہنرمندی کے عروج کے ساتھ لے کر جامپور کے ماہر کاریگروں کی شان جاری ہے۔۔ رنگ اور فن کا یہ حسین امتزاج معیار اور وقار کی ایک بےنظیر مثال ہے جو شیشم کی خشک لکڑی جو اپنی مضبوطی اور معیار کی وجہ سے صدیوں سے ہنرمندوں کی اولین ترجیح رہی ہے سے بنائے جاتے ہیں۔بناوٹ سے شروع سے لے کر تکمیل تک ایک ایک مرحلہ انتہائی کام سے واقفیت رکھنے والے کاریگر ہاتھ سے انجام دیتے ہیں۔۔ شیشم کی بلکل خشک لکڑی سے گھومنے والی چکری والی مشین پر چیزل کی مدد سے ہاتھ سے پاوا گھڑا جاتا ہے۔۔ کمالِ فن کو پہنچے ہوئے ہاتھ ہی جانتے ہیں کہ کونسا ڈیزائن کیسے بنانا ہے۔۔ دماغ اور ہاتھوں کی ساجھے داری سے دیکھتے ہی دیکھتے لکڑی کا ایک ٹکڑا ایک خوبصورت صراحی دار شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ لکڑی کی سطح کا ہموار کرنے کے لیے تھوڑی تھوڑی دیر باد ریگمال کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔لکڑی سے پاوا بنا لینے کے بعد رنگ چڑھانے کا عمل کیا جاتا ہے۔۔ لکڑی پر کچے رنگوں کا اسطر چڑھایا جاتا ہے جس کے بعد پہلے لال ،اس کے بعد پیلا اور آخر میں کالا رنگ چڑھایا جاتا ہے۔۔ اور انہیں خشک ہونے کے لیے کچھ وقت خاطر رکھ دیا جاتا ہے۔۔اب جو مرحلہ آتا ہے وہ انتہائی باریک بینی اور دماغی مشقت کا مرحلہ ہے یعنی نقاشی کا مرحلہ۔۔ خوبصورت نقش و نگار اور لال پہلے رنگوں سے بنے بیل بوٹے کسی پہلے سے نمانے کے طور پر سامنے نہیں رکھے ہوتے بلکہ نقاشی کرنے والے نقاش کے دماغ میں موجود ہوتے ہیں جو اسکے ہاتھوں سے بلکل پیمائش اور ترتیب کی رعایت کے ساتھ بنتے چلے جاتے ہیں۔۔ ڈیزائنر ایک لوہے کی پتلی سلاخ جس کو لوکل زبان میں #چتّرنی کہا جاتا ہے کی مدد سے کھرچ کر بنائے جاتے ہیں۔ کمال جاؤں ہنرمندوں کے جن کے دماغ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتنا دباؤ دے کر اب کونسے رنگ کو ظاہر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو کوئی پھول پیلے رنگ کا بنانا ہے تو اس کے لیے آپ کو اوپر والا کالا رنگ ہی اتارنا ہے تاکہ اس کے نیچے پیلے رنگ کو ظاہر کیا جاسکے مگر دباؤ دیتے وقت آپ کو اس بات کا انتہائی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ دباؤ زیادہ نہ آئے کیونکہ اگر دباؤ زیادہ آگیا تو وہاں پیلے کے نیچے موجود لال رنگ واضح ہو جائے گا جو کہ آپ کے ڈیزائن کی ڈیمانڈ نہیں ہے اور اپکی محنت ضائع ہوسکتی ہے۔۔ انتہائی احتیاط کے باوجود کہیں نہ کہیں پھر بھی تھوڑی بہت چوک کبھی کبھی ہو ہی جاتی ہے جس کی گنجائش ہاتھ سے ہوئے کام میں جائز ہے۔نقاشی کے عمل کے بعد انکی پر صفائی ستھرائی کے کیے لکڑی کو چمکانے والی بےرنگ پالش کی جاتی ہے جو نیچے موجود کچے رنگ پر کافی حد تک ایک احتیاطی کوٹنگ چڑھا دیتی ہے جس سے پاوے کا رنگ اور ڈیزائن باہری اثرات سے محفوظ ہوجاتا ہے اور پاوا چارپائی میں لگنے کے لیے مکمل تیار ہو جاتا ہے۔تیار ہونے کے بعد ہنر مندی اور کاریگری کی یہ بےمثال چیز اپنے بنانے والوں ہاتھوں اور دماغوں پر ناز کر رہی ہوتی ہے اور اپنے استعمال کرنے والوں سے داد کی منتظر نظر آتی ہے۔ ویسے تو آج کل ہر چیز بندۂ خدا کی پہنچ سے باہر ہی ہے مگر مشکل اور محنت طلب اور ہر قسم کے معیار پر کھرے یہ نقاشی والے جامپور کے پاوے قیمت میں بھی مناسب ہوتے ہیں اور اس قسم کے کام کے خواہشمندوں اور قدردانوں کے لیے مناسب ہی ہوتے ہیں۔ کئی دنوں کے مرحلہ وار بناوٹی عمل سے گزرے یہ نقاشی والے پاوے بنانے والے کاریگروں کی گزر بسر آج کل مہنگائی اور گاہکوں کے نہ ہونے کی وجہ سے شدید متاثر ہے۔ جس کی وجہ سے اس کام کو سیکھنے اور پیشے کے طور پر اپنانے والے لوگوں کا رجحان اس طرف بہت کم ہے۔ اور جدی پشتی کام کرنے والے لوگ بھی اب اپنے بچوں کو دوسرے پیشوں کی طرف بھیج رہے ہیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں سالوں کا امین یہ بہترین ہنر اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔

پنجاب حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کا حصہ نہیں بنے گی، وزیر داخلہ پنجاب

Shakira could face 8 years in jail

پاکستان میں صحت عامہ کی صورتحال تباہی کے دہانے پر ہے، عالمی ادارہ صحت

Leave a Comment
×

Hello!

Click one of our contacts below to chat on WhatsApp

× How can I help you?