زرعی مداخل کی دہلیز پر فراہمی سامنے کی بات کپتان کے ارسطو بھی نہ سمجھ سکے

  • Home
  • ملتان
  • زرعی مداخل کی دہلیز پر فراہمی سامنے کی بات کپتان کے ارسطو بھی نہ سمجھ سکے

ملتان(تجزیہ: عبدالستار بلو چ )کسان کو مداخل زراعت گھر کی دہلیز پہ کب ملیں گے؟تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والا بندہ بھی یہ جانتا ہے کہ کسانوں کےلئے زرعی مداخل کا ان کی دہلیز پربروقت پہنچنا کتنا اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی سے پیداواری لاگت میں کمی اور پیداوار میں اضافہ ہوسکتاہے۔ جوملک روایتی طور پہ زرعی ملک ہوا کرتا تھا اب اس ملک میں ہمیں گندم اور خوردنی تیل اور بیج تک باہر سے درآمد کرنا پڑ رہے ہیں۔ اور اس طرح کی امپورٹ کے وقت اگر عالمی منڈی میں اجناس اور تیل کی قیمتیں ساتھ ساتھ اوپر جارہی ہوں تو اوربھی احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اداہ شماریات پاکستان کا ایک سروے ہمیں بتاتا ہے کہ ایسی کوئی احتیاط ہماری حکومت نے برتنا مناسب خیال نہیں کیا۔سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ تمام صوبوں کے کسانوں کو زرعی مداخل اور دیگر خدمات تک رسائی کےلئے کئی کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔ کے پی کے جہاں پی ٹی آئی کا دوسرا دور حکومت چل رہا ہے وہاں کسانوں کو زرعی مداخل کے لئے 58کلومیٹر اوسطا ّسفر کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں جہاں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی مل کر حکومت ہے وہاں کسان کو 29 کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ پنجاب اور سندھ میں اوسط 20 سے 25کلومیٹر سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مواضعات کا سینسس 2020ہمیں بتاتا ہے کہ بیج، کھاد اور ادویات کے مراکز دیہی موضعوں سے پورے ملک میں اوسطاّ 22سے 23کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ جبکہ 2008میں یہ فاصلہ 26کلومیٹر تھا۔اس کا مطلب ہے کہ دیہات سے زرعی مراکز تک کا جو روڈ سٹرکچر ہے اس میں حکومتوں نے کچھ زیادہ تیز رفتاری نہیں دکھائی جبکہ لائیو سٹاک سے منڈیوں تک کا جو فاصلہ ہے وہ بھی کے پی کے میں 58کلو میٹر، بلوچستان میں 57کلومیٹر، پنجاب میں 21کلومیٹراور سندھ میں 21کلومیٹر ہے۔

اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے کسان ہر مرتبہ فصل اگانے کے وقت اور جانور بیچنے کے وقت اپنا کتنا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں اور اس کےلئے کرائے کی مد میں کتنی مشکل سے اکٹھا گیا گیا زر خرچ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر اسکے پاس مداخل زراعت اکٹھے ہوتے ہیں۔کسان کی اس صورت حال کی بلاشبہ ذمہ داری سابقہ اور موجودہ ساری حکومتوں پہ عائد ہوتی ہے لیکن اس وقت جتنی نازک صورتحال ہے اتنی شاید ماضی میں نہیں تھی اس لئے حکومت کو لازم تھا کہ اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتی اور اس کےلئے کاشتکاروں کی لاجسٹک مشکلات کا ادراک کرتی۔جب تک دیہات سے زرعی مارکیٹوں کا فاصلہ کم نہیں ہوتا اور کسانوں کو مداخل زراعت ان کے گھر کی دہلیز پہ نہیں ملتے تب تک زرعی معیشت کی بحالی ممکن نہیں،پاکستان جیسے زرعی ملک کاخوراک کی امپورٹ کا بل رواں مالی سال گزشتہ سال کے مقابلے میں 50فیصد بڑھ گیا ہے۔ یہ 9لاکھ 80ہزار ڈالر سے بڑھ کر 14لاکھ 73ہزار ہوگیا ہے۔ اوراس سے پہلے حکومت 6لاکھ ٹن چینی 40لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھالیکن ایسی صورتحال سے تب ہی بچاجاسکتاہے جب کسانوں کے دیہات سے زرعی مراکز کا فاصلہ کم ترین ہوجائے اور انہیں بروقت سستا بیج، کھاد، سپرے اور زرعی اددویات ملیں۔

Leave a Comment
×

Hello!

Click one of our contacts below to chat on WhatsApp

× How can I help you?