سا نحہ کالونی ٹیکسٹائل ملز کے زخم ہرے، تنخواہ مانگنے پر جھلسنے والا چل بسا

  • Home
  • ملتان
  • سا نحہ کالونی ٹیکسٹائل ملز کے زخم ہرے، تنخواہ مانگنے پر جھلسنے والا چل بسا

ملتان ( خصوصی رپورٹر)کالونی ٹیکسٹائل ملز میں تنخواہ مانگنے پر جھلسنے والا نوجوان چل بسا، واقعے نے سانحہ کالونی ٹیکسٹائل ملز کی یاد تازہ کر دی جب ضیا دور میں احتجاج کرنےوالے مزدوروں پرفائر کھول کردرجنوں محنت کشوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیاتھا۔تفصیل کےمطابق 15 فروری کو اڑھائی ماہ کی تنخواہ لینے کےلئے کالونی ٹیکسٹائل ملز کاعظمت نامی مزدور جب سپروائزر عبدالجبار کے آفس میں پہنچا اور اپنی تنخواہ کا مطالبہ کیا تو دونوں میں اسمعاملے پرجھگڑا ہو گیا اس دوران عبدالجبار نے تنخواہ دینے سے صاف انکار کیا تو عظمت نے شور مچانا شروع کر دیا جس پر سپر وائزر عبدالجبار اور اس کے ساتھیوں نے مبینہ طور پر عظمت پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی ۔اس صورتحال کے بعد ملز انتظامیہ نے اسے فوری طور پر ایمر جنسی نشتر ہسپتال پہنچایا اور اس دوران ورثاءکو فون کر کے اطلاع دی کہ عظمت نے خود سوزی کر لی ہے جس پر اس کے ورثاءفوراً نشترہسپتال کے برن یونٹ پہنچے اور اس کو تشویشناک حالت میں پایا جہاں اس کا سارا جسم آگ سے جھلس چکا تھاتاہم ڈاکٹروں نے اس کی جان بچانے کی سر توڑ کوشش کی مگر وہ جانبر نہ ہو سکا اور گزشتہ روز اپنے خالق حقیقی سے جا ملا جس پر اسکے ورثاءنے لاش نشتر روڈ پر رکھ کر سڑک کو تمام قسمی ٹریفک کیلئے بند کر دیا اور مل انتظامیہ کےخلاف پرچے کے اندراج کا مطالبہ کر دیا۔ مظاہرین نے مل انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی تاہم پولیس کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی پر کہ تمام قانونی تقاضے پورے کئے جائیں گے مظاہرین نے احتجاج ختم کر دیا مرحوم کے بھائی احمد نے اس حوالے سے روزنامہ “بیٹھک” سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے بھائی پر ملز انتظامیہ نے جھوٹا الزام لگایاکہ اس نے خود سوزی کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سپر وائزر عبدالجبار نے اس پر پہلے شدید تشدد کیا اور مزاحمت پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنا احتجاج پولیس کی اس یقین دہانی پر ختم کیا ہے کہ لاش کے پوسٹ مارٹم کے بعد پرچے کا اندراج کر دیا جائے گا تاہم اگر پولیس نے پرچہ درج نہ کیا تو دوبارہ احتجاج کیا جائےگا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ مل انتظامیہ اور سپر وائزر کےخلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ واضح رہے کہ 2 جنوری 1978 کو کالونی ٹیکسٹائل ملز کے درجنوں مزدوروں کو اس وقت بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنی تنخواہوں میں اضافے کےلئے ہڑتال پر تھے۔ کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں نے 29 دسمبر 1977 کو ‘کام چھوڑ ہڑتال شروع کی تھی اور مطالبات پورے ہونے تک فیکٹری کی بلڈنگ چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔کالونی ٹیکسٹال ملز کا مالک مغیث اے شیخ جنرل ضیا الحق کا قریبی دوست تھا۔ 2 جنوری 1978 کو مغیث اے شیخ کی بیٹی کی شادی تھی جس میں شرکت کےلئے ضیاالحق بھی راولپنڈی سے ملتان آئے ہوئے تھے جس سے ماحول مزید کشیدہ ہو چکا تھا۔دوسری جانب یہ خبر بھی مزدوروں میں پھیل گئی کہ مل مالک کی بیٹی کا جہیز ان سب کے اس بونس سے کئی گنا زیادہ مالیت کا ہے جسکی ادائیگی سے مالک انکاری تھا۔2 جنوری کو دن کے وقت جب مزدور اپنے احتجاج کےلئے فیکٹری کے گیٹ کی جانب بڑھنے لگے تو کسی نے ضیاالحق سے کہہ دیا کہ یہ لوگ شادی کی تقریب پر حملہ کرنےوالے ہیں۔ اس افواہ کے بعد ان مزدوروں کو کچلنے کا حکم جاری ہو گیا۔مزدوروں پر مسلسل تین گھنٹے تک گولیاں برسائی گئیں اور وہاں ہر طرف خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔ درجنوں لوگ تو موقع پر ہی مارے گئے ، کئی زخمی افراد زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے چل بسے۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شام کو ٹرکوں میں لاد کر ان کی لاشیں بگا شیر گاوں میں لے جائی گئیں اور وہاں بغیر کفن کے دبا دی گئیں۔ ڈاکٹر لال خان نے اپنی کتاب Pakistan’s Other Story میں لکھا ہے کہ اس دن فیکٹری کے باہر 80 سائیکلیں کھڑی تھیں جنہیں اپنے سوار دوبارہ نصیب نہیں ہوئے۔ ملک میں مارشل لا نافذ تھا، پابند سلاسل صحافت نے اگلے روز 18 اموات اور 25 افراد کو زخمی رپورٹ کیا جبکہ ورکرز ایکشن کمیٹی نے بتایا کہ اس سانحے میں 133 مزدور قتل جبکہ 400 کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے ہیں۔اس واقعے کو بہت سے لوگ ”پاکستان کے شکاگو“ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔

Leave a Comment
×

Hello!

Click one of our contacts below to chat on WhatsApp

× How can I help you?