
ملتان(تجزیہ: عبدالستار بلوچ) وزیراعظم سٹیزن پورٹل شہریوں کی شکایات کا سرد خانہ بنتا جارہا ہے ۔ روزنامہ بیٹھک نیوز ملتان میں شائع ہونےوالی ایک خبر کے مطابق ملتان کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی سے مایوس ہوکر 2000 شہریوں نے حکومت پنجاب سے 3 ارب 60 کروڑ روپے کے ترقیاتی کام کرانے کیلئے وزیراعظم سٹیزن پورٹل پہ مراسلے ارسال کئے۔ یہ مراسلے 2019ء سے 2021ءتک وزیراعظم سٹیزن پورٹل پر ارسال کئے گئے لیکن 3سال گزرنے کے باوجود وزیراعظم ہاؤس سے کسی ایک ترقیاتی منصوبے کیلئے حکومت کو فنڈ جاری کرنے کے لیے کوئی حکمنامہ جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایک پائی ان تجویز کردہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے جاری ہوئی۔ دوسری طرف 2000 شہریوں کی اکثر درخواستوں کو ریلیف دئیے بغیر ریلیف گرانٹڈ لکھ کر بند کردیا گیا- منفی فیڈ بیک دینے والے شہریوں کی بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی – وزیراعظم سٹیزن پورٹل کے بارے میں حکومت نے یہ دعو یٰ کیا تھا کہ سرکاری اداروں کے بارے میں شہریوں کی شکایت کے ازالے کا یہ بہترین اور پول پروف میکنزم بنایا گیا ہے اور اس سے سرکاری اداروں میں عام آدمی کے کام ہونے کی رفتار میں تیزی آئے گی لیکن شہریوں کی اکثریت کو وقت گزرنے کے ساتھ پتا چلا ۔یہ وزیراعظم سٹیزن پورٹل عوام کے مراسلوں کے ڈاکخانے میں بدل گئی ہے اور یہاں موصول ہونے والی شکایات وقت گزرنے کے ساتھ سرد خانے میں دفن کردی جاتی ہیں۔ شہریوں کا ترقیاتی کاموں کے منصوبے سٹیزن پورٹل پہ بھیجنے کا عمل صاف ظاہر کرتا ہے کہ شہریوں نے اپنے جو نمائندے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں بھیجے انہوں نے اپنے حلقوں کے شہریوں کے بہت سارے علاقوں کو درکار ترقیاتی کاموں سے محروم رکھا جس کے سبب وہ وزیراعظم کی سٹیزن پورٹل پہ اس امید کے ساتھ آئے تھے کہ یہاں انکو ریلیف ملے گا۔ لیکن انہیں یہ ریلف نہیں ملا۔ وزیراعظم سٹیزن پورٹل سے شہریوں کی شکایات کے ازالے کا دعویٰ محض دعوی ہی رہا جیسے وزیراعظم نے ٹیلفون کالز براہ راست سن کر شہریوں کے مسائل حل کرنے کا دعوی کیا لیکن وہ پروگرام بھی ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے۔ وزیراعظم سٹیزن پورٹل کے زریعے شہریوں ک مسائل حل کرنے کے منصوبے کی مبینہ ناکامی نے ایک بار پاکستان کے وفاقی و صوبائی اور بلدیاتی اداروں میں نوکر شاہی میں انٹرنل انتظامی کنٹرول اور چین اینڈ کماںڈ کی ابتری کو ظاہر کرتی ہے۔ اس ابتری سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ حکومت نے بیوروکریسی میں عوام دوست اصلاحات کرنے کے لیے سابق گورنر عشرت حسین کی سربراہی میں جو کمیشن قائم کیا اور اس نے جو سفارشات پیش کی تھیں ان پہ کہاں تک عملدرآمد ہوا؟ وزیراعظم سٹیزن پورٹل کی تین سالہ کارکردگی سے تو شبہ ہوتا ہے کہ بیوروکریسی میں اصلاحات کرنے کے دعوے ابھی تک محض دعوے ہی ہیں اور عوام اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے بھی نیچے سے اوپر تک جس فورم سے بھی رجوع کرتے ہیں وہاں سے ان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت نے ورلڈ بینک سے قرض لیکر میونسپل سروسز پروگرام شروع کیا اور اس کے پہلے فیز میں پنجاب کی اکثر بلدیات اور کارپوریشنوں کو اربوں روپے فراہم کیے کئے جس کے تحت سڑکوں کے انفراسٹرکچر کو درسست کرنا ، خراب سیوریج لائنوں کی جگہ نئی سیوریج لائنیں بچھانا اور اسٹریٹ لائٹس کے سسٹم کو درست کرنا اور واٹرسپلائی سسٹم کو درست کرنا تھا – چھوٹی سی چھوٹی بلدیات ک پہلے فیز میں 4 سے 5 ارب روپے فراہم کیے گئے – کاغذات میں تمام میونسپل کمیٹیاں اس پروگرام کا پہلا فیز شاندار طریقے سے مکمل کرچکی ہیں لیکن شہری ابھی تک خراب سیوریج سسٹم ، روڈ انفراسٹرکچر کی خستہ حالت ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے محروم نظر آتے ہیں جس کی شکایات وہ وزیراعظم کی سٹیزن پورٹل پہ درج کراچکے، ڈپٹی کمشنر سے لیکر لوکل گورنمنٹ سیکرٹری اور اس سے آگے چیف سیکرٹری تک کے نوٹس میں معاملہ لیکر آئے۔ لیکن ہر بار مسئلے کے حل کی جلد یقین دہانی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ موجودہ وفاقی اور پنجاب کی حکومتیں بار بار جنوبی پنجاب کے احساس محرومی کو دور کرنے کی باتیں کرتی ہیں ۔ ملتان اور بہاول پور جہاں اس وقت ایڈیشنل چیف سیکرٹری ، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ باقاعدگی سے بیٹھ رہے ہیں لیکن ملتان اور بہاول پور شہر کے باسیوں کے اکثر علاقوں میں ترقیاتی کام تعطل کا شکار ہیں اور وجہ فنڈز کی عدم دستیابی بتائی جارہی ہے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور چیف منسٹر پاکستان اربوں روپے کے جن فنڈز کے مختص کیے جانے کی بات کرتے ہیں وہ فنڈز کہاں پہ خرچ ہورہے ہیں؟ حال ہی میں روزنامہ بیٹھک نیوز ملتان نے ہی انکشاف کیا تھا کہ ایم ڈے ملتان کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن اکاو¿نٹ سے چوالیس کروڑ نکلواکر نیوملتان میں ایک اوور ہیڈبرج کی تعمیر پہ خرچ کردیے گئے جبکہ یہ منصوبہ پنجاب اور وفاق کے شترکہ فنڈ سے مکمل ہونا تھا جو سرے سے جاری ہی نہیں ہوئے۔ شہریوں کا حکومت کے بے عمل اور کھوکھلے دعوؤں سے حکومت پہ اعتماد ہی اٹھتا جارہا ہے جو عدم استحکام کا شکار حکومت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
Leave a Comment