ملتان (بیٹھک سپیشل رپورٹ ملک اعظم) سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کرنیوالی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ سابق کیپٹل سٹی پولیس آفیسر غلام محمود ڈوگر نے جائے وقوعہ سے گرفتار ہونیوالے مرکزی ملزم نوید احمد کو غیر قانونی حراست میں رکھنے،
اسکی ویڈیوز بنانے،بعدازاں انہیں لیک کرنے اور حملے کی سازش میں شامل اصل لوگوں کو بچانے کیلئے شواہد کو مسخ کرنے پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر گجرات سید غضنفر علی شاہ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ چونگ ہیڈکوارٹر لاہور ندیم حسین اور دیگر افسران و اہلکاروں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی سفارش کر دی ہے۔سابق سی سی پی او لاہور نے یہ سفارشات اپنی 19 جنوری کی فائنل انکوائری رپورٹ میں بطور کنوینئر جے آئی ٹی پیش کی ہیں۔رپورٹ کے مطابق فائنل انکوائری رپورٹ 3 جنوری کو جمع کرائی جانیوالی ابتدائی رپورٹ کا تسلسل ہے۔ جے آئی ٹی کو سٹی پولیس سٹیشن وزیرآباد میں تعزیرات پاکستان کی متعدد دفعات سمیت انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 کے تحت درج کی جانیوالی ایف آئی آر نمبر 691 کی تحقیقات انسداد دہشت گردی کی متعلقہ عدالت کی 17 نومبر اور بعدازاں 22 دسمبر کی ہدایات کی روشنی میں سونپی گئی۔ عدالت نے اپنے احکامات میں ملزم نوید کی غیرقانونی گرفتاری کے حوالے سے حقائق کی نشاندہی اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایات جاری کیں جس کی روشنی میں انکوائری کمیٹی جس کی سربراہی غلام محمود ڈوگر کر رہے تھےانہوں نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر گجرات سید غضنفر علی شاہ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ چونگ ہیڈکوارٹر لاہور ندیم حسین، ڈی ایس پی/آر او سی ٹی ڈی گوجرانوالا عمران عباس چدھڑ، ڈی ایس پی/انویسٹی گیشن سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز چونگ لاہور عبدالواحد ڈوگر، انسپکٹر/انویسٹی گیشن سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز چونگ لاہور محمود الحسن، ایس ایچ او صدر گجرات شہباز احمد، ایس ایچ او سوہدرہ امتیاز احمد، ایس آئی ایلیٹ فورس گجرات عامر شہزاد اور سی ٹی ڈی گجرات کے 3کانسٹیبلوں بشمول صنم عباس، توصیف احمد اور سلیمان کو انکوائری کیلئے طلب کیا۔ رپورٹ کے مطابق انکوائری کے دوران دونوں اعلی افسران بشمول ندیم حسین اور سید غضنفر علی شاہ کو اپنا موقف بیان کرنے اور اپنے موبائل فون حوالے کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا۔ اکیس ستمبر کو ڈی پی او گجرات غضنفر علی شاہ انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا تحریری مؤقف جمع کرایا جس کے مطابق عمران خان کی قیادت میں لانگ مارچ اللہ والا چوک شام 4بجے کے بعد پہنچا تو نامعلوم ملزم مجمع میں سے نکلا اور کنٹینر پر موجود قائدین پر فائرنگ شروع کر دی۔انکے مطابق آس پاس حفاظت پر موجود پولیس اہلکاروں نے پی ٹی آئی کے کچھ کارکنوں کی مدد سے ملزم کو گرفت میں لے لیا (جبکہ اس بیچ) مشتعل ہجوم نے تشدد کا راستہ اپناتے ہوئے ملزم پر حملہ کر دیا (مگر) ایس ایچ او صدر گجرات انسپکٹر شہباز جو کہ کنٹینر کے سامنے حفاظتی ڈیوٹی پر موجود تھا ملزم کو بچا کر حفاظت کی غرض سے قریبی تھانے لے گیا۔ ڈی پی او نے انکوائری ٹیم کو بتایا کہ وہ حادثے کے بعد معاملات کو ہینڈل کرنے کیلئے موقع پر موجود رہا (یوں اس بیچ) زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو بحفاظت موقع سے نکالا گیا۔ مشتعل ہجوم کو انگیج اور ٹھنڈا کیا گیا۔ جائے حادثہ کو محفوظ بنایا گیا۔ مجمع پرامن طریقے سے منتشر ہوا (اور) پولیس اہلکاروں، گاڑیوں اور (دیگر) سامان کی حفاظت یقینی بنائی گئی (جبکہ) اس بیچ ریجنل پولیس آفیسر سی ٹی ڈی گوجرانوالا ملزم کی گرفتاری کے محض 2گھنٹے کے اندر صدر پولیس اسٹیشن گجرات پہنچے اور سینئر کمانڈ کے احکامات کی روشنی میں ملزم انکے حوالے کر دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈی پی او گجرت سید غضنفر علی شاہ سے واضح عیاں ہوتا ہے کہ ملزم نوید موقع پر پکڑا گیا اور بعدازاں2 گھنٹے کے اندر اندر ریجنل آفیسر سی ٹی ڈی گوجرانوالا کے حوالے کیا گیا جبکہ ملزم کی گرفتاری کے 2گھنٹے کے اندر ہی اسکی ویڈیو مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چل گئی جس کی وجہ سے جے آئی ٹی کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے میں بہت زیادہ مشکل پیش آئی۔ انکوائری کمیٹی نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اگرچہ ایف آئی آر کا اندراج اور ملزم کی گرفتاری کا اندراج ڈی پی او غضنفر علی شاہ کی بطور ضلعی پولیس سربراہ ذمہ داری تھی (مگر انہوں نے ملزم کو سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا)۔ یہ بھی واضح ہے کہ ملزم نوید کی پہلی ویڈیو ڈی پی او گجرات غضنفر علی شاہ کے ذاتی موبائل سے بنائی گئی تھی جس کی وجہ سے انکوائری کمیٹی نے غضنفر علی شاہ کو متعدد بار اپنا فون فرانزک کیلئے دینے کو کہا گیا تاکہ اسے پنجاب فرنزک سائنس ایجنسی لاہور بھجوایا جا سکے مگر انہوں نے اپنا موبائل کمیٹی کے حوالے نہ کیا اور انکوائری کمیٹی کے سربراہ کے ساتھ انکوائری کی تکمیل کیلئے جج اینٹی ٹیررازم کورٹ گوجرانوالا کی ہدایات کے باوجود تعاون نہ کیا۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق ایس ایس پی انویسٹی گیشن سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز چونگ لاہور ندیم حسین کو بھی جج اینٹی ٹیررازم کورٹ گوجرانوالا کی ہدایات کی روشنی میں انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایات جاری کی گئیں مگر انہوں نے انکوائری میں شامل ہونے سے اجتناب کیا۔ باوثوق اطلاع کے مطابق ملزم نوید کی دوسری ویڈیو سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز لاہور میں بنائی گئی تھی جو بعد ازاں ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر کیس کی تحقیقات کو متاثر کرنے کیلئے نشر ہوئی تھی۔کراس ایگزامینیشن کے دوران سی ٹی ڈی انویسٹی گیشن ونگ چونگ لاہور کے انسپکٹر محمود الحسن نے بتایا کہ ایس ایس پی (ندیم حسین) سی ٹی ڈی چونگ کی سب جیل میں ملزم ندیم سے ملنے اسکے سیل آئے جبکہ انکے ساتھ 5سے 6نامعلوم لوگ تھے جن میں ڈی پی او گجرات اور ریجنل آفیسر سی ٹی ڈی بھی شامل تھے جبکہ 4سے 5نامعلوم لوگ 2سے 3گھنٹے ملزم کے سیل میں موجود رہے۔ محمود الحسن نے مزید بتایا کہ اس نے ریجنل آفیسر سی ٹی ڈی عمران اور ایس ایس پی ندیم کو ٹی وی پر چلنے والی ویڈیو میں دیکھا جبکہ وہ خود وہاں موجود نہیں تھا۔ اسکا مزید کہنا تھا کہ ملزم نوید سی ٹی ڈی کے سیل میں 3 نومبر 2022 سے 8 نومبر 2022 تک زیر حراست رہا جسے بعدازاں ڈی ایس پی انویسٹی گیشن ریجنل آفیسر سی ٹی ڈی نے ریجنل آفیس سی ٹی ڈی شفت کیا جبکہ ملزم کو دوبارہ 16 نومبر 2022 کی شام واپس لایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریجنل آفیسر سی ٹی ڈی گوجرانوالا ڈی ایس پی عمران عباس چدھڑ انکوائری میں شامل ہوا اور 10 دسمبر 2022 کو اپنا بیان جمع کرایا کہ اسکی جانب سے (ملزم کی) غیر قانونی حراست میں کسی قسم کی بدنیتی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ ڈی پی او گجرات سید غضنفر علی شاہ اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن سی ٹی ڈی ندیم حسین 5،6 نامعلوم لوگوں کے ساتھ ملزم کے سیل میں پہنچے اور ممکنہ طور پر انہوں نے ملزم کی دوسری ویڈیو بنائی جو کہ ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی۔رپورٹ کے مطابق ملزم نوید کی غیرقانونی حراست اور دو مختلف ویڈیوز بنانے کے حوالے سے تمام متعلقہ لوگوں کو تفصیلاََ سنا اور کراس ایگزامن کیا گیا۔ ڈی پی او گجرات پی ایس پی سید غضنفر علی شاہ اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن چی ٹی ڈی لاہور نے اپنے خلاف موجود کافی متعلقہ مواد کی موجودگی کے باوجود انکوائری کی کارروائی میں شامل ہونے کا تردد نہ کیا۔ باوجود اسکے کہ انہیں انکے اعلیٰ افسروں کے ذریعے متعدد بار انکوائری کیلئے سمن کیا گیا ۔وہ جج اینٹی ٹیررازم کورٹ گوجرانوالا کے حکم پر شروع کی جانیوالی انکوائری میں نہ صرف شامل نہ ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے موبائل فون، تھانہ صدر گجرات اور سی ٹی ڈی سب جیل لاہور کی ویڈیو ریکارڈنگز پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی سے فرانزک کیلئے پیش نہ کیں اور فون پر بتایا کہ انکے پاس ڈی وی آرز اور ویڈیوز نہیں ہیں لہذا انہوں نے مرکزی ملزم نوید کی گرفتاری نہ ڈالنے، اسکی ویڈیوز بنانے اور بعدازاں انہیں نشر کرنے اور حملے کی سازش میں شامل اصل لوگوں کو بچانے کیلئے شواہد کو مسخ کرنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تاحال افسران کے خلاف کیس میں پاکستان پینل کوڈ کی تعزیری دفعات 201، 217 اور 218 کے ساتھ ساتھ پولیس آڈر کی سیکشن 155 سی 3 نومبر 2022 کو تھانہ سٹی وزیرآباد کے مقدمہ نمبر 691 شامل کی جاتی ہیں۔انکوائری کے اختتام پر جے آئی ٹی کے کنوینئر نے ڈی پی او گجرات سید غضنفر علی شاہ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز چونگ لاہور ندیم حسین اور دیگر افسران و اہلکاران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی سفارش کی ہے۔ذرائع کے مطابق رپورٹ جج اینٹی ٹیررازم کورٹ گوجرانوالا کی عدالت میں جمع کرا دی گئی ہے۔ روزنامہ ’’بیٹھک‘‘ نے اس سلسلے میں ڈی پی او گجرات سید غضنفر علی شاہ اور ایس ایس پی انوسٹیگیشن سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز چونگ لاہور ندیم حسین کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو دونوں افسران رابطے میں نہ آ سکے۔

عمران خان حملہ کیس، شواہد مسخ پولیس ذمہ دار: جے آئی ٹی
مزید جانیں
مزید پڑھیں
ملتان ( خصوصی رپورٹر,بی زیڈ یو )بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کا اجلاس زیرصدارت پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی منعقد ہوا۔ اجلاسمیں سینڈیکیٹ ممبران جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم سابق وائس چانسلر علامہ اقبال مزید پڑھیں