مسلح افواج کے نئے سربراہ کی تقرری ملین ڈالرسوال بن گیا۔ - Baithak News

مسلح افواج کے نئے سربراہ کی تقرری ملین ڈالرسوال بن گیا۔

مسلح افواج کے نئے سربراہ کی تقرری ملین ڈالرسوال بن گیا۔

لندن میں مسلم لیگ ن کے تاحیات قائداور وزیراعظم شہباز شریف نےسر جوڑ لئے
، شہباز شریف کابعض حلقوں کیطرف سے نئے آرمی چیف کی تقرری پر اپوزیشن سے مشاورت کیلئے دباؤ ، دباؤ ڈالنے والے حلقے کون سے ہیں؟ عمران خان کے پاس اپنے مطالبات منوانے کیلئے کون سے کارڈ باقی رہ گئے ہیں؟ کیا مصطفیٰ نواز کھوکھر کا استعفیٰ پیپلزپارٹی کی قیادت نے مانگا؟ کیا استعفے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟ نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ جاری کر دیا گیا، کیا وہ دسمبر میں واپس آئیں گے؟
جنرل قمر پرویز باوجوہ جو 26 نومبر کو ریٹائر ہورہے ہیں اور آج کل مسلح افواج کی فارمیشنز کے الوداعی دورے کررہے ہیں۔ انکے ان دوروں کو پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا کیطرف سے ڈمیج کنٹرول کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔ جب سے عمران خان نےلانگ مارچ کے دوران مبینہ قاتلانہ حملے میں3 اعلیٰ سطح سرکاری شخصیات کو ملوث قرار دیاہے تب سےمسلح افواج اور آئی ایس آئی دفاعی پوزیشن لیتی نظر آرہی ہیں اور ہر طرح سے کوشش کررہی ہیں کہ ان کو سیاسی جوار بھاٹے سے الگ رکھا جائے۔ جنرل باوجوہ پہلے آرمی چیف ہیں جنہوںنے ریٹائرمنٹ قریب آنے پر مسلح افواج کی فارمیشنز کے الوداعی دورے شروع کئےہیں، اسلئے ان کے ان دوروں پر قیاس آرائیوں نے جنم لیا ہے
۔عمران خان نے اپنے اوپر مبینہ قاتلانہ حملے کےبعد شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال میں پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر اُن کو قتل کرانے کی سازش کے مرکزی کردار ہیں اور انہیں بلاسفیمی کا مرتکب بتاکر ویسے ہی قتل کرانے کی کوشش کی گئی ہے جیسے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر پر بلاسفیمی کا الزام لگاکر انھیں قتل کرایا گیا تھا۔مسلح افواج کے ترجمان نےاس پریس کانفرنس کے فوری بعد ردعمل میں پریس ریلیز جاری کی تھی جس میں ان الزامات کی سختی سے تردید کی گئی تھی۔آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت پاک فوج کو بدنام کرنے کی اس مہم کا نوٹس لے اور کاروائی کرے۔
گویا اس پریس ریلیز میں مسلح افواج کیطرف سے عمران خان اور دیگر رہنماؤں کیخلاف انتہائی اقدام یعنی پی ٹی آئی پر پابندی اور قیادت کیخلاف بغاوت و انتشار پھیلانے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس پریس ریلیز کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے باقاعدہ خطاب کیا لیکن انھوں نے عمران خان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کی بجائے گیند سپریم کورٹ بار میں پھینک دی اور اس سے کہا کہ وہ اس سارے معاملے کا نوٹس لے اور اپنا فیصلہ سُنائے۔ وزیر اعظم کی اس تجویز کا حیرت انگیز طور پر عمران خان نے خیرمقدم کیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ نہ صرف اُن پر قاتلانہ حملے کی سازش کی تحقیق کرائیں بلکہ صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات بھی کرائیں – صحافی ارشد شریف کی نامکمل پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکے قتل سے پہلے اُن کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے جس سےاس سے معاملے نے نیا رُخ اختیار کرلیا ہےاور حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف حکومت سے جانے کے بعد سے مسلسل الزام لگارہی ہے کہ انکی حکومت ختم کرنے میں فوج کے سربراہ جنرل باجوہ اورآئی ایس آئی کے موجودہ چیف کاہاتھ ہے۔ جون 2022 میں پنجاب میں ضمنی انتخابات کے دوران عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کی انکے خلاف کاروائیوں میں فوج کےسربراہ، ڈی جی آئی ایس آئی کیساتھ آئی ایس آئی کے دونئے افسروں کو سرگرم قرار دیاجنہیں وہ پہلے مسٹر ایکس و مسٹر وائے کا نام دیتے رہے اور بعد ازاں ان کو فہیم اور راشد کے ناموں سے پکارا۔ لانگ مارچ کےدوران عمران خان نے آئی ایس آئی کے ڈی جی کمیونیکشن میجر جنرل فیصل نصیر کا نام سامنے لائے۔ ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر میجر جنرل سرفراز کی کوئٹہ میں ہیلی کاپٹر حادثے میں موت کے 10دن بعد ڈی جی سی آئی ایس آئی مقرر کئےگئے تھے جبکہ میجر جنرل سرفراز کی موت بارے سوشل میڈیا پر کافی سازشی تھیوریوں کو پھیلایا گیا تھا جسکے بارے میں کہا گیا تھاکہ یہ پروپیگنڈا پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بریگیڈ نےپھیلایا تھا۔وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کو ایسا پروپیگنڈا کرنیوالوں کی نشاندہی کرکے انکے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے نے کافی گرفتاریاں بھی کیں ۔تحریک انصاف کی طرف سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت کے خلاف جو مہم شروع کی، اسے غیر موثر بنانے کا سوال اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ابھی تک کھڑا ہے۔
افواج کے ترجمان اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ملکر اس چیلنج سے نمٹنے کیلئےپریس کانفرنس کی تھی جس میں پہلی بار عمران خان پر سخت الزامات لگائے گئے اور دعویٰ بھی کیا تھا کہ عمران خان انہیں تحریک عدم اعتماد کے وقت سے غیر جانبدار رہنے کے فیصلے سے دستبردار کرانا چاہتے تھے اور فوج و آئی ایس آئی کو اپوزیشن کی ساری قیادت کو جیل میں ڈالنے کو کہہ رہے تھے۔ گویا فوجی اسٹیبلشمنٹ نے موجودہ وفاقی حکومت کے اس الزام کی تصدیق کی تھی کہ عمران اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کیخلاف جو بیانات دے رہے ہیں وہ غلط ہیں جبکہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے سیاست میں عمران کے حق میں جانیوالی مداخلت کامطالبہ کررہے ہیں اور جب فوج و ایجنسیوں کی قیادت نے انکا کہا نہ مانا تو تب وہ مسلح افواج کے افسران کی کردار کُشی اور انھیں بلیک میل کرنے لگے ۔عمران خان اور اُنکی جماعت کی جانب سے مسلح افواج اور آئی ایس آئی سربراہوں کے خلاف ریڈیکل مہم نہ صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لئے سنگین چیلنج بنی ہوئی ہےبلکہ وفاقی حکومت بھی اس سےنبرد آزما ہونے میں مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔ مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم، اس کیطرف جھکاؤ رکھنے والے تجزیہ کار تاثر دے رہے ہیں جیسے عمران خان اور انکی جماعت کیطرف سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جارحانہ مہم بیک فائرکررہی ہے –
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے ایک جعلی لیٹر پیڈ پر عمران خان سے منسوب اعلامیہ بھی خوب پھیلایا گیا جس میں تحریک انصاف اور اسکی زیلی تنظیموں کو چیف آف آرمی سٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی سی آئی َایس آئی کیخلاف بیان بازی فوری بند کرنے کی ہدائت کی گئی تھی۔ وفاقی حکومت کے حامیوں کیطرف سے یہ بھی تاثر دیا جارہا تھا جیسے عمران خان اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر میں تین اعلیٰ شخصیات کے نام دینا نہیں چاہتے اور وہ اسے محض سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے لیکن پی ٹی آئی نے ایک طرف تو پنجاب پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کیخلاف سیشن کورٹ سے رجوع کرلیا اور عمران خان پر قاتلانہ حملے میں پی ٹی آئی کی مدعیت میں ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست کی جس میں وزیراعظم، وفاقی وزیر داخلہ اور میجر جنرل فیصل نصیر کے نام شامل کرنے کی استدعا کی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے مرکزی چیئرمین عمران خان نے چیف جسٹس سپریم کورٹ عطا بندیال سے درخواست کی ہے وہ اُن پر حملے کی جانچ میں میجر جنرل فیصل نصیر کے کردار کی بھی تفتیش کرے ۔اس پیشرفت سے صاف نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے جن کرداروں کو سیاسی بیانیہ میں بطور ولن رکھا وہ انھیں اپنے بیانیے سے خارج کرنے پر تیار نہیں ہیں اور اسی راستے پر اپنے حامیوں کو چلانا چاہتے ہیں ۔
شہباز گِل کیس، ارشد شریف قتل کیس، اعظم سواتی تشدد کیس، ویڈیو لیکس اور عمران خان قاتلانہ حملہ کیس یہ چار بڑے کیس ہیں جن کو لیکر تحریک انصاف اور اسکے سربراہ کیطرف سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت کیخلاف مضبوط اور موثر بیانیہ کی تشکیل میں مدد دینے والے ثابت ہوئے ہیں ۔ان چاروں واقعات نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے ۔نواز شریف کا حامی سمجھا جانے والا مین سٹریم میڈیا کاسیکشن اس ساری صورتحال میں ایک طرف تو نواز شریف کو غیر لچکدار پوزیشن کا حامل بتارہا ہے۔ جنگ/نیوز /جیو اور ڈان میڈیا گروپ میں موجود بڑے اینکرز، رپورٹر اور تجزیہ نگاروں کے شائع ہونے اور نشر ہونے والے تجزیوں میں یہ رپورٹ کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے وزیراعظم شہباز اور دیگر وزراء اور رہنماؤں کو کہا ہے کہ وہ عمران کیطرف سے دباؤ بڑھانے کی پالیسی کو خاطر میں نہ لائیں۔ شہباز شریف جو لندن کے ایک ہفتے کے دورے پر ہیں کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ ان کو بعض حلقوں نے نئے آرمی چیف کی تقرری پر عمران خان سے مشاورت اور درمیانی راہ نکالنے کاکہا اور شہباز شریف اسی دباؤ بارے آگاہ کرنے نواز شریف کے پاس گئے ہیں۔ یہ دعویٰ کرنیوالوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ حلقے کون سے ہیں؟ کیا اُن کا تعلق فوج سے ہے؟
یا اتحادی جماعتوں سے ؟ دوسری طرف فیصل واڈوا کے بعد پی ٹی آئی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ میجر ایم پی اےنے جیو ٹی وی چینل کے معروف اینکر صحافی حامد میر کو تفصیلی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ میجر جنرل فیصل نصیر کے بارے میں عمران خان کو انکے اردگرد رہنماؤں نے گمراہ کن اطلاعات دی ہیں ۔انہوں نے میجر جنرل فیصل نصیر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ عمران خان کو قومی ہیرو اور عوام کی نمائندہ بڑی جماعت کاسربراہ مانتے ہیں اور اٌنکا عمران خان کیخلاف کچھ کرنے کا ارداہ نہیں ۔میجر(ریٹائرڈ) خرم حمید خان روکھڑی نےدوران انٹرویو یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ پی ٹی آئی کی فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم سے خودکو الگ کرچکے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا کا لبرل سیکشن ایک طرف تو نوازشریف کےمبینہ غیر لچک دار موقف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے جارحانہ رویے کی تعریف کررہا ہے تودوسری طرف عمران خان کی حمایت میں کمربستہ اعتزاز احسن اور اعظم سواتی ویڈیو لیکس کو لیکر مصطفی نواز کھوکھر کے دعوے اور استعفےکو لیکر پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت پر شدید تنقید کررہا ہے اور الزام عائد کررہا ہے کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے بننے کے جتن کررہےہیں ۔پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کو پیپلزپارٹی کی قیادت کے مبینہ آزادی رائےکے دشمن رویے کیخلاف آواز اٹھانے والےہیروز قرار دے رہا ہے-
پیپلزپارٹی کے اندر دوسرے درجے کی قیادت اور کارکنوں کی اکثریت اعتزاز احسن اور مصطفی نواز کھوکھر پر شدید تنقید کررہی ہے اور انکا دعویٰ ہے کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر پیپلزپارٹی کیطرف سے وفاقی وزیر نہ بنائے جانے پر ناراض ہیں باقی سب باتیں زیب داستان بیان کرنے کیلئے ہیں ۔سیاسی حلقوں میں مین سٹریم میڈیا کے پرو نواز شریف لبرل سیکشن کی جانب سےپیپلزپارٹی کی قیادت کیطرف سے فوج کے سربراہ قمر باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی اور میجر جنرل فیصل نصیر کیخلاف عمران خان کی مہم کی مخالفت کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جھک جانے جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، وزیر اعظم شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے بیانات کو سراہے جانے کی پالیسی کو اسٹیبلشمنٹ نواز نہ قرار دینے کو کھلا تضاد قرار دیا جارہا ہے۔
پیپلزپارٹی پنجاب کے سوشل میڈیا پر سرگرم نان آفیشل ایکٹوسٹ پی پی پی سنٹرل پنجاب اور اس کے آفیشل سوشل میڈیا پر خاموش رہنے کا الزام عائد کررہے ہیں اور انہیں نااہلی کا طعنہ بھی دیا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی لاہور سے تعلق رکھنے والے سینئر رہنما پروفیسر ڈاکٹر یوسف اعوان، ڈاکٹر محمد ضرار یوسف اور رانا شرافت علی ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کا شعبہ نشر و اشاعت اور آفیشل سوشل میڈیا پی پی پی کیخلاف پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے اور پارٹی کی پالیسی کو واضح کرنے میں ناکام ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر بلاول بھٹو کے ترجمان کے طور پر بلاول بھٹو کی ترجمانی کرنے کی بجائے ذاتی موقف کی تشہیر کرنے میں مصروف رہے اور آخری دنوں میں تو انہوں نے پی پی پی مخالف پروپیگنڈے کو اپنا لیا تھا۔
پی پی پی کے سینٹر ہونے کے ناطے5 سال 9 مہینے انھوں نے پارٹی قیادت اور فیصلوں کی ترجمانی کے فریضے کو بھلائےرکھا اور اب جب انکی ریٹائرمنٹ میں 3ماہ باقی رہ گئے تھے تو انہوں نے ضمیر کا قیدی اور آزادی رائے کا سورما بننے کا ڈرامہ رچا کر استعفیٰ دیا۔ وہ اگر پارٹی قیادت اور پارٹی کے اجتماعی فیصلوں سے اختلاف رکھتے تھے تو انہیں جس دن یہ محسوس ہوا تھا اسی دن بلاول بھٹو کے ترجمان اور سینٹر شپ دونوں سے استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا۔

پنجاب حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کا حصہ نہیں بنے گی، وزیر داخلہ پنجاب

Shakira could face 8 years in jail

پاکستان میں صحت عامہ کی صورتحال تباہی کے دہانے پر ہے، عالمی ادارہ صحت

اپنا تبصرہ بھیجیں