نظریہ ضرورت کے باعث باوردی افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، فیصؒے پر عمل ہوناچاہئے:دلیر جج کافوجی آمرکو عبرت بنانےکا تاریخی فیصلہ جسٹس وقارسیٹھ سرخرو،آئین شکن کاجلاوطنی میں انتقال - Baithak News

نظریہ ضرورت کے باعث باوردی افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، فیصؒے پر عمل ہوناچاہئے:دلیر جج کافوجی آمرکو عبرت بنانےکا تاریخی فیصلہ جسٹس وقارسیٹھ سرخرو،آئین شکن کاجلاوطنی میں انتقال

ملتان (بیٹھک رپورٹ) سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی اتوار کے روز دبئی میں جلاوطنی کی حالت میں وفات نے آئین شکنی کے جرم میں سابق ڈکٹیٹر کو سزائے موت دینے والے پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے کو امر کر دیا۔ اگرچہ جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں قائم ٹریبونل کے فیصلے کو بعدازاں لاہور ہائیکورٹ کے ایک بینچ نے کالعدم قرار دیدیا تھا لیکن اس فیصلے کے بعد سابق ڈکٹیٹر اعلانات کے باوجود پاکستان واپس نہ سکا۔منتخب حکومت کاتختہ الٹ کر ملک پر قبضہ کرنے والے فوجی آمراورآئین شکن سابق آرمی چیف اورباوردی صدرپرویزمشرف جلاوطنی میں انتقال کرگئےجبکہ انکوآئین توڑنے کی پاداش میں پھانسی دینے کا دلیرانہ اورآئینی فیصلہ دینے والےجسٹس سیٹھ وقار اسکے ساتھ تاریخ میں امر ہو گئے۔خصوصی عدالت نےسابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔جس میں 2 ججز نے سابق صدر کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 5 الزامات پر انہیں علیحدہ علیحدہ سزائے موت دینے کا حکم دیا۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں پرویز مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا ۔جسکے بعد آج اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا، جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔عدالت کا تفصیلی فیصلہ جسٹس وقار سیٹھ نے تحریر کیا جبکہ انہوں نے اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا۔تاہم جسٹس شاہد کریم نے سزا سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے فیصلے میں شامل پیراگراف 66 سے اختلاف کیا، جس میں مشرف کے سزا سے پہلے وفات پانے کی صورت میں ‘ڈی چوک پر گھسیٹ کر لانے اور 3 دن تک لٹکانے کا ذکر کیا گیا۔جسٹس شاہد کریم نے پیراگراف 66 پر اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ میں جناب صدر (سربراہ بینچ) سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ اس کی قانون میں کوئی بنیاد نہیں اور ایسا کرنے سے اس عدالت کیلئےمنفی تاثر جائے گا، میرے خیال میں یہ کافی ہے کہ مجرم کو سزائے موت دی جائے۔تفصیلی فیصلے کیمطابق جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ دیا۔عدالتی فیصلے میں سنگین غداری کیس میں جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا اور پرویز مشرف کو بری کردیا۔اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔فیصلے کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے مشرف کو قانون کے مطابق سزا دلوانے کو یقینی بنائیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ جمع کرائے گئے دستاویزات سے واضح ہے کہ ملزم نے جرم کیا، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں۔اس میں کہا گیا کہ ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔جسٹس وقار نے فیصلہ دیا کہ پھانسی سے قبل اگر مشرف فوت ہوجاتے ہیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک لایا جائے اور وہاں 3 دن تک لٹکایا جائے۔ جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔فیصلے کے مطابق پرویز مشرف کو فرار کرانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔فیصلے میں کہا گیا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔فیصلے میں پرویز مشرف پر 5 الزامات لگائے گئے، جن کے ثابت ہونے پر ہر الزام پر سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا۔عدالت نے کہا کہ سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا۔فیصلے کے مطابق پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت 20نومبر 2013 کو قائم کی گئی اور 31 مارچ 2014 کوعدالت نے مشرف پر فرد جرم عائد کی۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت نے 19 جون 2016 کو مشرف کو مفرور قراردیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت کی 6مرتبہ تشکیلِ نو ہوئی اور یہ کیس 2013 میں شروع ہوکر 6 سال بعد ختم ہوا۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو انکےحق سے بھی زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع دیا گیا۔عدالتی فیصلے کیمطابق استغاثہ کے شواہد کی روشنی میں ملزم مثالی سزا کامستحق ہے، عدالت ملزم کو پھانسی کی سزا سناتی ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔تفصیلی فیصلے کے مطابق نظریہ ضرورت کے باعث باوردی افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہم نتیجے پرپہنچے ہیں کہ جس جرم کا ارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6کےتحت سنگین غداری کےجرم میں آتا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 6 آئین کا وہ محافظ ہے جو ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ چیلنج کرنے والوں کا مقابلہ کرتا ہے۔مشرف کو جن 5الزامات پر پھانسی دی گئی ان میں سےپہلا یہ کہ 3نومبر 2007 کو راولپنڈی میں چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے آپ نے غیرآئینی اور غیرقانونی طریقے سے ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کا حکم نامہ 2007 جاری کیا، جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 کو غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر معطل کردیا گیا اور اس کے نتیجے میں آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتاً سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔دوسرا یہ کہ 3نومبر 2007 کو راولپنڈی میں چیف آف آرمی سٹاف کی حیثت سے آپ نے 2007 کے عبوری آئینی حکم نمبر ایک کا غیرآئینی اور غیرقانونی حکم جاری کیا جس نے غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر صدر کو وقتاً فوقتاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 میں ترمیم کا اختیار دے دیا اور آئین کے آرٹیکل 9، 10، 15، 16، 17، 19 اور 25 کے بنیادی حقوق کو معطل کر کے آپ آئین پر اثرانداز ہوئے، نتیجتاً سنگین غداری کے جرمکے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔تیسرا یہ کہ 3نومبر 2007 کو راولپنڈی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے آپ نے ججوں سے حلف کا آرڈر 2007 جاری کیا جسے شیڈول میں غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر متعارف کرایا گیا جس کے تحت ججوں کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کی پابندی کرنی ہے کہ وہ اسی کے مطابق اقدامات کرتے ہوئے کام سر انجام دیں گے اور اس کے نتیجے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ کے متعدد ججوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا لہٰذا آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتاً سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔چوتھی بات یہ کہ 20نومبر 2007 کو راولپنڈی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثت سے آپ نے آئینی ترمیم آرڈر 2007 کا غیرآئینی اور غیرقانونی آرڈر5 جاری کیا جس کے نتیجے میں آرٹیکل 175، 186(اے)، 198، 218، 270(بی) اور 270(سی) میں غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر ترمیم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 میں آرٹیکل 270اے اے کا اضافہ کر کے آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتاً سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔پانچویں بات یہ کہ 14دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے آپ نے آئینی ترمیمی آرڈر 2007 کا آرڈر6 (دوسری ترمیم) کا غیرآئینی اور غیر قانونی حکم نامہ جاری کر کے غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 میں ترمیم کی اور آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتاً سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری(جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا اور کہا کہ جو ثبوت پیش کئےگئے اس میں یہ ثابت ہوا کہ ملزم نے جرم کیا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا ٹرائل ان لوگوں کیلئے آئین کی ضرورت ہےجو کسی بھی وجہ سے آئین کو کمزور کریں یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کریں، لہٰذا یہ عدالت استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف پیش کئےگئےناقابل تردید، ناقابل تلافی اور ناقابل اعتراض ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ واقعی ملزم نے جرم کیا ہے اور وہ مثالی سزا کا مستحق ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمے کا سامنا کرنیوالے ملزم کے عمل اور برتاؤ سے یہ واضح ہے کہ اس مقدمے کی شروعات سے ہی ملزم نے اس میں تاخیر، پیچھے ہٹنے اور حقیقت میں اس سے بچنے کیلئےمستقل کوشش اور ضد کی، ساتھ ہی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ان کی درخواست رہی کہ وہ صحت کی خرابی یا سکیورٹی کے خطرات کی وجہ سے مقدمے کا سامنا کرنے کیلئے عدالت تک نہیں پہنچ سکتے۔تفصیلی فیصلے کےمطابق اگر ایک لمحے کے لیے یہ تصور کیا جائے کہ کور کمانڈرز سمیت اعلیٰ فوجی کمانڈ اس میں ملوث نہیں تو پھر کیوں وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کا دفاع اور تحفظ کرنے میں ناکام رہے اور ایک وردی میں موجود شخص کو نہ روکا، اس وقت کی کورکمانڈرز کمیٹی کے ساتھ تمام دیگر وردی والے افسران جنہوں نے انہیں ہر وقت تحفظ فراہم کیا وہ ملزم کے عمل اور اقدام میں مکمل اور برابر کے شریک ہیں۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ‘ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے۔فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ضروری منطقی نتیجہ کے طور پر ہم ملزم کو الزامات کے مطابق مجرم قرار دیتے ہیں، ساتھ ہی فیصلے میں کہا گیا کہ مجرم کو ہر الزام پرتب تک گردن سے لٹکایا جائے جب تک وہ مر نہیں جاتے۔جسٹس وقار احمد سیٹھ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک آمر صرف اس وقت تک اقتدار میں رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنے عوام کی مرضی کو تہہ وبالا نہیں کرے، آئین کے ذریعے قائم کردہ حکومت اور ریاست کے دیگر اداروں کے فرائض پر قبضہ کرنا آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش (جیسا کہ انہیں کام کرنے سے روکنا/ یا ان سے اضافی آئینی حلف لینا) آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔عدالتی فیصلے کے مطابق یقیناً سزائے موت اور فیصلے کے اس حصے کی کہیں بھی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں لیکن کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے اور ملزم کو مجرم قرار دے کر ان کی غیرموجودگی میں سزائے موت سنائی گئی ہے، لہٰذا سزا پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔تفصیلی فیصلے کے مطابق یہ انصاف کے حق میں بہتر ہوگا کہ مفرور ملزم کو فرار کرانے میں سہولیات فراہم کرنے میں (اگر کوئی)ملوث ہے تو انہیں بھی قانون کے دائرے میں لایا جائے اور (اگر کوئی) مجرمانہ اقدامات ہیں تو ان کی بھی تحقیقات کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔فیصلے میں جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ انصاف و قانون کے بارے میں عاجزانہ قانونی فہم کے ساتھ میں نے اپنے بھائی وقار احمد سیٹھ کی جانب سے لکھے گئے مجوزہ فیصلے کا انتہائی احترام کے ساتھ جائزہ لیا اور میں اپنے قابل بھائیوں کی اکثر آرا سے اختلاف کرتا ہوں۔جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام کو مذکورہ تاریخ پر آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ وکیل یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ جب یہ جرم کیا گیا، اس وقت آئین کی منسوخی یا کسی ادارے کے اختیارات پر اثرانداز ہونے کے سوا کسی بھی فرد کے کسی بھی عمل پر آرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوتا تھا۔اس وقت آئین کی منسوخی یا کسی ادارے کے اختیارات پر اثرانداز ہونے کو ہی سنگین غداری تصور کیا جاتا تھا۔ساتھ ہی اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ 20 اپریل 2010 تک آئین کے آرٹیکل 6 کی تعریف میں آئین کی معطلی اور عبوری معطلی کے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے تھے اور انہیں سنگین غداری کے مبینہ جرم کے ارتکاب کے ڈھائی سال بعد 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں متعارف کرایا گیا۔اختلافی نوٹ میں جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ سال 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد سنگین غداری کی تعریف اپڈیٹ کی گئی تھی۔انہوں نے لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 6 میں جرم کے طور پر سنگین غداری کو بتایا گیا ہے لہٰذا اس کے مفہوم کو سمجھے بغیر یہ عدالت ایک شفاف فیصلہ جاری نہیں کر سکتی۔جسٹس نذر اکبر کے مطابق اس وجہ سے استغاثہ کے دونوں قابل وکلا اور میرے دونوں قابل بھائیوں نے سنگین غداری کے الفاظ کی تعریف کے لیے آکسفورڈ ڈکشنری کے 10ویں ایڈیشن میں دیے گئے ‘سنگین غداری کے معنی پر انحصار کیا ہے۔

مزید جانیں

مزید پڑھیں
بی زیڈ یو

بی زیڈ یو کے مالی معاملات،حکومتی نمائندوں سے کرانے پر اتفاق

ملتان ( خصوصی رپورٹر,بی زیڈ یو )بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کا اجلاس زیرصدارت پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی منعقد ہوا۔ اجلاسمیں سینڈیکیٹ ممبران جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم سابق وائس چانسلر علامہ اقبال مزید پڑھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں