(والدین،حکومتیں بےحس)ڈبے کے دودھ پرپلے’’شاہین‘‘ شوگر، موٹاپے کاشکار - Baithak News

(والدین،حکومتیں بےحس)ڈبے کے دودھ پرپلے’’شاہین‘‘ شوگر، موٹاپے کاشکار

ملتان(بیٹھک سپیشل :علی نومان)پاکستان میں ذیابیطس (شوگر) کی بیماری میں 12.6 فیصد نوجوان لڑکے اور 12.1 فیصد نوجوان لڑکیاں مبتلا ہیں، 9.4 فیصد لڑکے اور9 فیصد لڑکیاں موٹاپے کا شکار ہو رہی ہیں۔وفاقی دارالحکومت میں پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق پارلیمانی ٹاسک فورس کا اجلاس گزشتہ ہفتےہوا۔ یونیسف حکام نے ٹاسک فورس کو بریفنگ دی جسکے مطابق ملک میں 9.4 فیصد لڑکے اور9 فیصد لڑکیاں موٹاپے کا شکار ہو رہی ہیں۔یونیسف حکام نے مزید بتایا کہ 20.5 فیصد جوان لڑکوں اور20.7 فیصد جوان لڑکیوں کا وزن زیادہ ہے۔ نوجوان لڑکوں میں 12.6 فیصد اور لڑکیوں میں 12.1 فیصد ذیا بیطس میں مبتلا ہیں۔کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ بچوں کیلئےفارمولا دودھ کی انڈسٹری خوب پھل پھول رہی ہے۔ دنیا بھر میں 34 فیصد بچوں کو مائیں اپنا دودھ پلاتی ہیں جبکہ پاکستان میں یہ شرح 6 سے 23 ماہ کے 14.6 فیصد ہے۔ یہ امر قابل ذکر کہ طبی ماہرین مائوں کیجانب سے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانا ماں اوربچے دونوں کی صحت کیلئے بہترین قرار دیتےہیں۔دوسری جانب دنیا میں ذیابطیس کامرض بچوں میں وبائی امراض کے بعد سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے،آسان رسائی کیوجہ سے بچے میٹھے کھانے، سنیکس اور مشروبات کےشوقین ،صحتمند خوراک مہنگی اورمحنت طلب ، والدین کاطرز عمل خرابی کا باعث، حکومت اشیا میں شوگر کی محفوظ حد بارےآگاہی نہیں دےرہی ،ماہرین کے مطابق ذیابطیس دائمی مرض ،اثرات تاعمربھگتنے پڑتے ہیں ،حکومتوںکا غذائی پروگرامز میں شوگر کی زیادہ مقداروالےپروسیسڈفوڈ پر انحصار، لوگوں کو ڈبے والے دودھ کی ترغیب ، انڈونیشیا میں ذیابیطس کے علاج کی لاگت 2045 میں 33 فیصد بڑھ جائے گی،اگر حکومت اوروالدین روش فوری ذمہ داریاں پوری نہیں کرینگے تو خدشہ ہے کہ یہ بیماری مستقبل میں پوری آبادی کوخوفناک نتائج سے دوچار کر دیگی،سنٹر فار انڈونیشیا کے سٹریٹجک ڈویلپمنٹ انیشیٹو (سی آئی ایس ڈی آئی) کے بانی اور سی ای او دیاہ سمینارسیح نےبچوں میں شوگر کا مرض بڑھنے کی تشویشناک شرح پر کہا ہے کہ حکومت فوری ایسے قواعد وضوابط جاری کرےجس سے بچوں میں ذیابیطس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کیسز کےپیش نظر لوگوں کو چینی کااستعمال کم کرنے پرزوردیا جائے۔ انڈونیشین پیڈیاٹریشن ایسوسی ایشن (IDAI) نے پہلے اعداد و شمار جاری کئے تھے جس میں بتایا گیا تھا کہ 2010 کے مقابلے جنوری 2023 میں ذیابیطس کے شکار بچوں کی تعداد میں 70 گنا اضافہ ہوا ہے۔اس کے علاوہ، سوشل سیکورٹی ایڈمنسٹریشن ایجنسی (بی پی جے ایس) کے مین ڈائریکٹر برائے صحت علی غفرون نے بھی کہا کہ 2018 کے مقابلے میں 2022 میں ذیابیطس کے بچوں کے مریضوں میں تقریباً 1000 کا اضافہ ہوا۔دیاہ کے مطابق، اعداد و شمار ایک “انتہائی تشویشناک” صورتحال پیش کر رہے ہیں اوربچوں نےغیر صحت مند طرز زندگی اپنایا ہےجبکہ ایک بےقاعدگی چینی کے زیادہ استعمال کی بھی ہے۔میٹھا کھانااور مشروبات آسانی سے قابل رسائی ہیں، جبکہ حکومتی پالیسیوں کو اب تک ناکافی سمجھا جاتا رہا ہے، صحت عامہ کےحوالےسے عوام میں شعور اب بھی کم ہےاس لئےحکومت مشروبات کی قیمت کے 20 فیصد تک میٹھے مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی لگا کر اس صورتحال میں فوری مداخلت کرے۔اسکے علاوہ، ایسے ضابطے بنائے جائیںجنکے تحت مینوفیکچررز کو لیبل پر شوگر کی مقدار درج کرنے کا پابند کیا جائےاوراس پرہر مشروب میں چینی کی مقدار کے بارے میں معلومات کیساتھ روزانہ چینی کے استعمال کی حد بھی لکھی ہو۔انہوںنے بتایاکہ حکومت کو اس حوالے سے مسلسل ہر سال صورتحال بتائی جا رہی ہے لیکن چینی کے استعمال میں کمی کاکارپوریٹ مفادات سے ٹکرائو ہونے کے سبب کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہےاورحکومتی مداخلت کے بغیر خدشہ ہے کہ بچوں میں ذیابیطس کے کیسز بڑھتے رہیں گےاوراور ریاست کیطرف سے اٹھائے جانے والے صحت پراخراجات کا بوجھ بڑھ جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ جنوری 2023 میں انڈونیشیا میں ذیابیطس کے شکار 1645 بچے تھے، جہاں پھیلاؤ فی 100000 بچوں میں 2 کیسزتھے،یہ تعداد 2010 کے مقابلے میں 70 گنا چکی ہےاور وبائی مرض کے بعد سے بچوں میں ذیابیطس کے کیسز تیزی سےبڑھ رہے ہیں۔ماہرین کاخیال ہے کہ اسکی وجہ جسمانی سرگرمی کی کمی ہے جو بچوں کو بہت زیادہ حرکت کرنے اوربے قاعدگی سے کھانے کیطرف دھکیل رہی ہےاور 2018 سے 2022 تک ذیابیطس کے شکار بچوں کے کیسز میں بہت اضافہ ہوا ہے۔دیاہ کے مطابق، بچے میٹھے کھانے اور مشروبات کے شوقین بنے ہوئے ہیں اورکم عمری سے ہی ایسے کھانوں اور سنیکس کیوجہ سے جن میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، غیر صحت بخش” کھانے کے انداز کےعادی ہوتے ہیں۔مزید برآں، موجودہ صورتحال میں، فوری اور میٹھے کھانے تک رسائی آسان اورپریکٹیکل سمجھی جاتی ہےجبکہ صحتمند خوراک مہنگی اورمحنت طلب کام ہےا۔ن حالات میں والدین کے فیصلے بچوں کو میٹھے کھانے کا عادی بنا دیتے ہیں۔یہی وہ چیز ہے جب بچے اپنی چیزیں خرید سکتے ہیں، گھر میں والدین کاطرز عمل بچوں میں شوگرکا مرض بڑھنے میں بہت فعال ہےجبکہ کھانے پینے کی اشیا میں شوگر کی محفوظ حد کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔2013 کے منسٹر آف ہیلتھ ریگولیشن نمبر 30 کی بنیاد پر ، فی شخص فی دن اضافی چینی کی تجویز کردہ کھپت 50 گرام یا چار کھانے کے چمچ کے برابر ہے۔تاہم، دیاہ نے اندازہ لگایا کہ اب بھی بہت سے لوگ ہیں جو “سمجھ نہیں پاتے” کہ کتنی چینی کو محفوظ کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے، اس لیے حکومت کی جانب سے ایسے ضابطوں کی ضرورت ہے جو اس کو تفصیلسےمرتب کریں۔ انہوں  نے کہا کہ حکومت خود اپنے غذائی پروگرام میں بھی پروسیس شدہ مصنوعات پر انحصار کرتی نظر آرہی ہے جن میں شوگھر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔حکومت نےخود لوگوں کو ڈبے والا دودھ پینے کی ترغیب دی ، جس میں چینی کی زیادہ سے زیادہ استعمال کی حد کا ایک تہائی حصہ ہوتا ہے۔دیاہ کیمطابق، بچوں میں ذیابیطس کے معاملات میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہےجودائمی مرض ہے اوراسکے اثرات تاعمربھگتنے پڑتے ہیں ۔اگر حکومت اوروالدین روش فوری ذمہ داریاں پوری نہیں کرینگے تو خدشہ ہے کہ یہ بیماری مستقبل میں پوری آبادی کوخوفناک نتائج سے دوچار کر دیگی ۔صحت کے اخراجات کے بڑھتےبوجھ کوحکومت برداشت نہیں کر پائے گی کیونکہ ذیابیطس دل اور گردے جیسی دیگر بیماریوں کوپیچیدہ کرنیکا باعث بن سکتی ہے۔ذیابیطس کی وجہ سے، خاص طور پر ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ، تقریباً 30 فیصد مریضوں کے گردے فیل ہوسکتے ہیں جن کا علاج انتہائی مہنگا ہےجبکہ ذیابطیس کے علاج کا بوجھ بھی نا قابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔انڈونیشیا میں ذیابیطس کے علاج کی لاگت 2045 میں 33 فیصد بڑھ جائے گی۔بچوں میں ذیابیطس کی بلند شرح کے بارے میں، وزارت صحت نے کہا کہ اب جو پالیسی لاگو کی جا رہی ہے، اسکا مقصد والدین کو پیکیجڈ اور تیار کھانے اور مشروبات پر غذائیت کی معلومات کی آگاہی دینا ہےاورتوقع ہے کہ “بڑے پیمانے پر فروغ اور تعلیم سے عوام کی سمجھ میں اضافےکیساتھ میٹھے کے استعمال میں کمی آئیگی ۔ ایک اور کوشش میٹھے کھانے اور مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ کی تجویز ہےتاہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس پالیسی کو کب نافذ کیا جائے گا۔

مزید جانیں

مزید پڑھیں
کارڈیالوجی

بہاولپور: 625اسامیاں خالی،کارڈیالوجی سنٹر آج بھی عملاً غیرفعال

بہاول پور(رانا مجاہد/ ڈسٹرکٹ بیورو)بہاول پور کارڈیک سنٹر گریڈ 01 تا 20 کی 625 آسامیوں پر تعیناتیاں تا حال نہ ہو سکی۔ بہاول پور کارڈیک سنٹر جس کو خوبصورت بلڈنگ اور جدید سہولیات کے حوالے سےسٹیٹ آف آرٹ کہا جاتا مزید پڑھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں