وزارت قانون و انصاف کی جانب سے پاکستان کی تاریخ میں ضابطہ فوجداری کا سب سے بڑا ترمیمی بل کا ڈرافٹ تیار کر لیا گیا، نیا ترمیمی بل وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے تیار کیا ہے، ترمیمی بل میں برطانوی راج میں بنائے گئے ضابطہ فوجداری قانون مجریہ 1898, تعزیرات پاکستان 1860, قانون شہادت آرڈر 1984, پاکستان پریزن رولز 1978, میں نئی ترامیم پیش کی گئی ہیں، ترمیمی بل کی وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی ہے، جس کو دونوں ایوانوں میں پیش کیا جائے گا، موجودہ حکومت نے 120 سالہ فرسودہ قوانین کو تبدیل کیا ہے، مجوزہ ترامیم کے مطابق ضابطہ فوجداری میں پولیس کو کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے لیے دئیے گئے اختیار کی دفعہ 54 میں ترامیم کرتے ہوئے تجویز دی گئی کہ آئندہ پولیس کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کے حوالے سے فوری طور پر اطلاع ملزم کے رشتے دار، دوست یا محلہ دار کو دے گی ، ان کے دستخط لئے جائیں گے، اور اس بارے الگ سے میمورنڈم تیار کرے گی، ملزم کی گرفتاری کے بعد ملزم کا فوری طبی معائنہ بھی کرایا جائے گا اور اس کا ریکارڈ بھی مثل کا حصہ بنایا جائے گا، جبکہ چالان مقدمہ متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنے کی مدت بڑھا کر ایک سال کرنے کی ترمیم کی گئی ہے، اور کریمنل کیس کا نو ماہ میں فیصلہ کیا جائے گا، تھانہ انچارج کے لیے بی اے کی تعلیم لازمی قرار دیدی گئی ہے، متذکرہ بل میں ریلوے ایکٹ اور منشیات کے مقدمات میں سزائے موت ختم کرنا، غیر قانونی پولیس حراست پر سات سال قید کی سزادی جائے گی، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی پر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ، خواتین کی جاسوسی، انہیں ہراساں کرنا، اور کسی فرد کو پانی میں پھینکنا جرم تصور ہو گا، مسودہ میں شامل دفعات کے مطابق طبی معائنہ کی غرض سے بنائے جانے والے میڈیکل بورڈ کا سربراہ کوالیفائیڈ اور تجربہ کار ماہر نفسیات ڈاکٹر ہو گا، بغیر وارنٹ گرفتاری انچارج تھانہ کے علم میں لائی جائے گی، جو اپنا اطمینان کر کے اسے ضبط تحریر میں لائے گا نیز زیر حراست فرد کے اہل خانہ کو اس بارے میں مطلع کیا جائے گا اور چوبیس گھنٹوں کے اندر اسے وکیل تک رسائی دی جائے گی، اخراجات نہ ہونے کی صورت میں سرکاری خرچے پر وکیل فراہم کیا جائے گا، ریپ کیسز میں 72 گھنٹوں کے اندر نمونہ لیکر ڈی این اے ٹیسٹ منظور شدہ لیبارٹری سے کرایا جائے گا، مزید برآں مقدمہ کی کارروائی مجسٹریٹ اور ججز کو 9 ماہ کی مدت میں مکمل کرنی ہوگی، زیر التوا کیسوں کی ماہانہ رپورٹ معہ وجوہات متعلقہ ہائی کورٹ اور اس کی نقل صوبائی اور وفاقی سیکرٹری قانون کو ارسال کی جائے گی اور مطمئن ہونے پر ہائی کورٹ مقدمہ کی تکمیل کے لیے نئی ٹائم لائن مقرر کرے گی، مسودہ قانون میں مغربی ممالک کی طرز پر فوجداری پلی بارگین کا نیا باب متعارف کرایا گیا ہے، جس کے تحت ملزم ٹرائیل کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست دے گا اور عدالت درخواست کا جائزہ لیکر سزا میں تخفیف کر سکے گی، مقدمات کے اندراج سے لیکر عدالتی کارروائی کے دوران آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرے گی، اشتہاری ہونے کی صورت میں عدالت ملزم کا قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک کارڈ اور بینک اکاو¿نٹ بلاک کرنے کا حکم دے سکے گی، 15 سال سے کم اور 65 سال سے زیادہ عمر کے مشتبہ افراد، جسمانی یا ذہنی طور پر معذور افراد یا کسی خاتون کو تفتیش کے لیے تھانہ پر نہیں بلایا جائے گا، اندراج مقدمہ کی درخواست خارج ہونے پر ایس پی کو اپیل کی سماعت کا حق دیا گیا ہے۔
ایک صحت مند معاشرے کے تناظر میں خامیوں سے پاک عدالتی اور پولیس نظام سے انکار ممکن نہیں ہے اور وطن عزیز میں اس کی ضرورت روز اول سے ہی محسوس کی جاتی رہی ہے، تحریک انصاف کی حکومت نے اس کا ادراک کرتے ہوئے نیا مسودہ قانون تیار کیا ہے، جس کے تحت ضابطہ فوجداری، تعزیرات پاکستان اور قانون شہادت میں ایک سو سے زائد ترامیم کی گئیں ہیں، جن کی پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد انگریز کے 1898 میں نافذ کئے گئے قانون کی جگہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک جامع فوجداری قانون اور نظام رائج ہو سکے گا، یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ مروجہ قانون انگریزوں کا بنایا ہوا تھا جو ایک صدی سے زیادہ پرانا اور فرسودہ نظام تھا، جس میں پائی جانے والی خامیوں کی وجہ سے امیر اور بااثر افراد اس کا فائدہ اٹھاتے تھے۔
مجوزہ اصلاحات اور ترامیم پر جہاں مختلف طبقات نے ملی جلی آرا کا اظہار کیا ہے، وکلائ برادری میں اس پر بڑی حد تک تحفظات پائے جاتے ہیں جبکہ پنجاب وکلاء محاذ اور سپریم کورٹ بار کونسل نے اس بنیاد پر اس کو یکسر مسترد کردیا ہے کہ یہ ترامیم تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر پیش کی گئی ہیں، ان کے بقول انہیں مزید بہتر بنانے کیلئے وسیع پیمانے پر مشاورت کی ضرورت ہے، جبکہ وزارت قانون و انصاف کا دعویٰ ہے کہ یہ اصلاحات ملک میں انصاف تک سب کی برابر رسائی کو یقینی بنائیں گی۔
جسٹس آف پیس کے اختیارات محدود کرنے کا فیصلہ، پولیس کے متعلقہ ذمہ دار فورمز کی طرف سے ایف آئی آر کے اندراج یا کارروائی سے انکار کے بعد عدالت سے رجوع کیا جا سکے گا، جبکہ وکلاء محاذ پنجاب نے جسٹس آف پیس کے اختیارات محدود کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کردیا، چیلنج کرنے کا اعلان، بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانونی ترمیم قابل قبول نہیں کی جا سکتی، وکلاءراہنما، تفصیل کے مطابق حکومت نے پولیس کی طرف سے مقدمات کے اندراج نہ کرنے پر جسٹس آف پیس کی عدالت میں رٹ پٹیشن دائر کرنے کے حوالے سے ضابط فوجداری قانون مجریہ 1890 کے سیکشن 22 اے کے ضمن 6 میں جسٹس آف پیس کو حاصل عدالتی اختیارات محدود کرنے کا بذریعہ ترمیم فیصلہ کیا ہے، اب سائل یا متاثرہ فریق کو مقدمہ درج کرانے کے لیے پولیس کے تمام متعلقہ ذمہ دار فورمز پر پہلے جانا ہو گا، اگر پھر بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی تو پھر جسٹس آف پیس کی عدالت سے رجوع کرنا ہو گا، متفرق فوجداری قانون کے تحت درخواستوں پر سماعت اور کارروائی کا اختیار بھی مجسٹریٹ صاحبان سے واپس لیا جائے گا، جبکہ ضمانت پولیس کے اختیارات میں دے دی گئی ہے کہ کس ملزم کو ضمانت دی جائے گی، کریمنل لاء میں پلی بارگین کا سسٹم لانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، جسٹس آف پیس سمیت عدالتی اختیارات محدود کرنے کے نئے حکومتی فیصلے پر وکلاءرہنماو¿ں اور پنجاب وکلا محاذ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس ترمیم کو یکسر مسترد کردیا ہے،پنجاب بار کونسل، پنجاب وکلاء محاذ کے عہدے داران کا کہنا ہے کہ حکومت ملک کو پولیس سٹیٹ بنانے کے درپے ہے، یہ ترمیم انصاف کے تقاضوں اور شہریوں کو حاصل ائینی بنیادی حقوق کے خلاف ہے، وکلاء کے خلاف سازش کی جارہی ہے، وکلاءایسے اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے، وکلاء رہنماو¿ں نے نئی ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔