پشاورجیل میںتعلیم سے انقلاب،جنوبی پنجاب کی جیلوں میں سہولتوں کا فقدان - Baithak News

پشاورجیل میںتعلیم سے انقلاب،جنوبی پنجاب کی جیلوں میں سہولتوں کا فقدان

پشاور(بیٹھک سپیشل :علی نومان )پشاورشہر کی جیل میں قیدیوں کی تعلیم کیلئےخصوصی اقدامات کئےگئےہیں اورتعلیم حاصل کرنے کے نتیجے میں مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ، قیدیو ں کے مثبت رویوں کے جیل حکام بھی معترف ہیں جبکہ قیدی بھی تعلیم کے حوالےسے کئے گئے اقدامات پر مطمئن اوراسے جاری رکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔دوسری جانب جنوبی پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حالات اتنے اچھے نہیں ہیں، پاکستان کےلاء اینڈ جسٹس کمیشن (2017) کے مطابق، قیدیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، اور یہ جیل انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں تعلیمی مواقع فراہم کرےتاہم پاکستان کی بیشتر جیلوں میں کوئی تعلیمی یا تربیتی سہولت مہیا نہیں۔تعلیم سیاسی اور سماجی و اقتصادی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔مختلف سٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیم کی قیدیوں کی معاشرے میں بڑی اہمیت ہےجنہیں معاشرے میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔پاکستان غربت، کم شرح خواندگی جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہے،جہاں آبادی بے قابو اوروسائل محدود ہونے کی وجہ سے کم ذرائع آمدن میں جرائم کی بلند شرح ہے۔ملکی قانون کے مطابق اورجسٹس کمیشن (2017) کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں تقریباً 80 ہزار قیدی ہیں جن کی اکثریت غریب، ان پڑھ، منشیات کے عادی، ذہنی بیمار اور ڈپریشن کا شکار ہے۔تعلیم جو کہ انسان کو ناپسندیدہ جذبوںمثلاََ لالچ،اشتعال اورمایوسی سےلڑناسکھاتی ہےجوکہ معاشرے کے تمام افراد کو فراہم کی جانی چاہیے تاہم قیدی معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو کئی بنیادی ضروریات کیساتھ تعلیم سے بھی محروم رہے ہیں،اس طرف ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی جانی چاہئے۔پشاورسینٹرل جیل میں اس پروگرام کے تحت جیل میں قیدی ایک ہی چھت کے نیچے تعلیم حاصل کر رہےہیں۔قیدیوں کے استاد انشاء محمد بھی اسی جیل کے قیدی اوروہا ں علم کی روشنی پھیلا رہے ہیںجن کاکہنا ہے کہ انکے طلباء سنجیدگی اورجذبے سےعلم حاصل کر رہے ہیں ۔انکے مطابق، طالب علموں کو جیل میں انکے متعلقہ خصوصی کمروں میں پریکٹس کرنے کے لیے فیملی ٹاسک دیے جاتے ہیں اور اگلے دن وہ چیک کرتے ہیں کہ انھوں نے کام کیا ہے یا نہیں۔لیکن انشاء محمد کا کہنا ہے کہ “تمام طلباء اپنا کام وقت پر مکمل کرتے ہیں۔”ایک قیدی عامر خان کے مطابق انہیں پڑھنے کے علاوہ مختلف پیشوں کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔پشاور سنٹرل جیل کے چیف مقصود الرحمان کا کہنا ہے کہ تعلیم سے قیدیوں کے رویے میں بہتری آئی ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں جیل میں تعلیمی اداروں کی مدد سے اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور اسے آمدنی کے ذرائع کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ نے پختونخوا کی جیلوں میں قیدیوں کیلئےتعلیمی پروگرام 2002 میں شروع کیا تھا۔اس پروگرام میں زیادہ تر قیدیوں کو جنہوں نے اپنی تعلیم مکمل نہیں کی انہیں پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔قومی انسانی ترقی کمیشن کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے ہزاروں قیدیوں نے اپنی پرائمری تعلیم مکمل کی ہے۔پشاور جیل کے ایک اور قیدی حشمت بنگش کا کہنا ہے کہ وہ خطوط پڑھنا سیکھنے کے بعد اب اخبار پڑھ سکتےہیں، جو وہ پہلے نہیں کر سکتے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ جیل میں انکا وقت پڑھائی کے ساتھ اچھا گزر رہا ہے۔انہوں نے قومی کمیشن برائے انسانی ترقی یا ‘NCHD’ سےمطالبہ کیا کہ اس تعلیمی پروگرام کو جاری رکھاجائے۔این سی ایچ ڈی کے ایک اہلکار نے ‘شمس نے بتایا کہ انکے پاس پختونخوا کے کچھ اضلاع میں پرائمری تعلیم کا پروگرام ہے۔ایک اور اہلکار طاہر شریف کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں جیلوں میں خواتین اور بچوں کیلئےتعلیمی پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔پشاور سینٹرل جیل کے سربراہ مقصود الرحمان کا کہنا ہے کہ این سی ایچ ڈی کی تعلیم کے اس پروگرام سے انہوں نے قیدیوں کے طرز عمل میں ایک مثبت تبدیلی دیکھی ہے اور قیدی اب پہلے کی طرح گارڈز اور اپنے قیدیوں سے نہیں جھگڑتے۔انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ تعلیم کے اس عمل کو جاری رکھاجائے۔دوسری طرف جنوبی پنجاب کی جیلوں کےحوالےسے سٹڈیز سے واضح ہے کہ قیدی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن انکی اس خواہش اور ضرورت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا،جنوبی کی جیلوں میں تعلیمی سہولیات کا جائزہ لینےکیلئےریسرچرزکی جانب سے کی گئی ایک سٹڈی میں جنوبی پنجاب میں قیدیوں کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ قیدیوں کو تعلیم سے متعلق گوں نا گوں مسائل درپیش تھے، سائوتھ پنجاب سنٹر فارریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی جانب سے کی گئی سٹڈی کیلئے حاصل کئے گئے ڈیٹا سے یہ سامنے آیا کہ جیلوں میں قیدیوں کی تعلیم کو نظرانداز کیا جا رہ ہے،جیلوں میں تدریسی مواد دستےیاب نہیں جس میں کمپیوٹرز بھی شامل ہیں جبکہ آرٹس اور سائنس کے اساتذہ بھی دستیاب نہیں تھے، سٹڈی میںحکومت کو سفرشات دی گئیں کہ وہ مناسب فنڈز مختص کرکے قیدیوں کوہنرمند اورکا رآمد شہری بنانے کیلئے اقدامات کرے۔سڈی میں شریک قیدیوں سےحاصل کی گئی تفصیل کیمطابق جنوبی پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کی تعلیم کو نظر انداز کیا جاتاہے،اکثرقیدیوں نےتعلیمی سہولیات کےمئوثرنہ ہونے کا کہاجبکہ لائبریری کے استعمال کے بارے میں بھی وہ مطمئن نہیں تھے ، نصف قیدیوں نے شکایت کی کہ انہیں کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔جنوبی پنجاب کی جیلوں میں تعلیمی سہولیات پرسٹڈی میں دیہی اورشہری علاقوں کی جیلوں میں قیدیوں نے یکساں طور پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔اس بارے میں جنوبی پنجاب کی مختلف جیلوں کے حکا م نے جوابات میں کہا کہ قیدیوں کی تعلیم کامقصدانہیں اچھا شہری بنانا ہے،انہوں نے بتایا کہ جیلوں میں کمپیوٹر لیبز ،کمپیوٹر د،مذہبی اساتذہ موجود تاہم ،آرٹس اور سائنس کے اساتذہ دستیاب نہیں تھے۔انہوں نےاعتراف کیاکہ وہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے قیدیوں کوتمام مطلوبہ تعلیمی سہولیات نہیں دے سکےجبکہ حکومت کی طرف سے فیکلٹی فراہم نہیں کی گئی۔سٹڈی سے نتیجہ نکلا کہ جنوبی پنجاب کی جیلوں میںقیدیوں کی تعلیم کو نظر انداز کیاجاتا ہے جبکہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔جواب دہندگان تعلیمی سہولیات پرمطمئن نہیں تھے۔ آدھے سے زیادہ جواب دہندگان نے پیشہ ورانہ کورسز کی دستیابی پرمثبت جواب دیااور بتایا کہ الیکٹریکل اور کمپیوٹر کورس جیسے ووکیشنل کورسز جیل میں کرائےجاتے ہیںتاہم اس کے آلات کے حوالےسے وہ مطمئن نہیں تھے۔سٹڈی سےپتہ چلا کہ خطے کی جیلوں میں تعلیمی سہولیات کے تسلسل اورانکی حوصلہ افزائی کی کافی گنجائش ہے۔پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں سماجی و اقتصادی تفاوت کی وجہ سے جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اچھی اصلاح کی فراہمی کے بغیرسب ضائع ہو سکتاہےاورجیلوں پر خرچ قومی وسائل بے سود رہیں گے، سٹڈی میں امید کا اظہار کیاگیا کہ پنجاب اورخطے کی جیلوں میں تعلیم یسہولیات کی فراہمی کو ترجیح دی جائیگی ۔حکومت کوسفارشات دی گئیں کہ جیلوں میں آرٹس، سائنس کے مضامین اور ووکیشنل انسٹرکٹرز کی تدریس کی سہولت فراہم کی جائے۔، جیلوں میں کمپیوٹر اور کمپیوٹر لیبز کی حالت بہتر ہونی چاہیے۔ قیدیوں کے پاس کمپیوٹر تک رسائی ہونی چاہیے۔ قیدیوں کو اسلام کا بنیادی علم دینا ضروری ہے، محکمہ جیسے Tevta اور سماجی بہبود کے محکمےجیلوں میں تکنیکی تعلیم دیں کیونکہ زیادہ تر جواب دہندگان بھی تکنیکی تعلیم کے شوقین ہیں۔ جیلوں میں جواب دہندگان کو سٹیشنری فراہم کی جانی چاہیے۔ لائبریریوں میں ضروری مطالعہ کا مواد ہونا چاہیے۔ جیلوں میں جواب دہندگان کے پڑھنے اور لکھنے کی مہارت پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ جواب دہندگان کی تشخیص باقاعدہ امتحانات کے ذریعے ہونی چاہیے۔ انسٹرکٹرز کو قیدیوں کو عملی طور پر پیشہ ورانہ کورس سکھانا چاہیے۔ حکومت کو پیشہ ورانہ کام کے لیے کمپیوٹر، لائبریری اور سامان مہیا کرنا چاہیے۔این جی اوز کمپیوٹر، لائبریری اور پیشہ ورانہ آلات فراہم کرنے کے لیے آگے آ سکتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے جواب دہندگان کو وظائف دیے جا سکتے ہیں جو اعلی کے لیے دلچسپی رکھتے ہیں۔ثانوی سطح تک رسمی تعلیم حکومت کی طرف سے جیلوں میں فراہم کی جانی چاہیے۔ جیل کی تعلیم پر سیمینارز اور مختلف ورکشاپس کا اہتمام یونیورسٹیاں اورکالجز کر سکتےہیں۔

مزید جانیں

مزید پڑھیں
کارڈیالوجی

بہاولپور: 625اسامیاں خالی،کارڈیالوجی سنٹر آج بھی عملاً غیرفعال

بہاول پور(رانا مجاہد/ ڈسٹرکٹ بیورو)بہاول پور کارڈیک سنٹر گریڈ 01 تا 20 کی 625 آسامیوں پر تعیناتیاں تا حال نہ ہو سکی۔ بہاول پور کارڈیک سنٹر جس کو خوبصورت بلڈنگ اور جدید سہولیات کے حوالے سےسٹیٹ آف آرٹ کہا جاتا مزید پڑھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں