ہم اور ہمارے حقوق. . . .

بسم اللہ ارم

دس دسمبر انسانی حقوق کے شاندار عالمی منشور کی یاد دلاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد انسانیت لہو لہان تھی ،دنیا کے مختلف جنگ زدہ علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی عام بات بن چکی تھی۔ ایسے بگڑے ہوئے حالات میں اقوام متحدہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔ اقوام متحدہ کے 48 ارکان ممالک نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کو متفقہ طور پر 1950 میں منظور کیا اور یہ دن اس وقت سے نا صرف انسانی حقوق کی جامع تعریف بیان کی گئی بلکہ تما م ارکان ممالک کے لئے یکساں اصول وضع کیے گئے کہ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم مذہبی، قومی، جغرافیائی، لسانی، رنگ و نسل کے لحاظ سے مختلف ضرور ہوسکتے ہیں لیکن ہمارے خون کا رنگ ایک ہے۔ دنیا کا ہر انسان ایک خدا کی مخلوق ہے۔ انسانوں کے حقوق کا احترام یقینی بنانا ہم پر لازم ہے اور ہر انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی جا سکے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے اپنے معاشرے میں انسانی حقوق کےاحترام یقینی بنایا وہ ترقی اور خوشحالی کے سفر میں تیزی سے آگے بڑھتے چلے گئے اور ریاستوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ انسانی حقوق کی پامالی ہے ۔
پاکستان کا آئین انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے مگر پاکستان میں انسانی حقوق کی حالت مختلف حکومتوں کے دوران مختلف درجہ پر رہی اور اکثر عوام کے آئینی شہری اور جمہوری ماحولیاتی حقوق سلب ہوتے نظر آئے ملکی معیشت قا نون تک رسائی پالیسیوں کے حوالے سے مسائل رہے یعنی انسانی حقوق چند قوانین اور ان سے متعلق اصلاحات کا مجموعہ ہی رہا۔ یہ بھی بات قابل غور ہے کہ کسی بھی ایشو پر قانون سازی کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ قانون بننے کے بعد منظوری کے بعد عمل درآمد کے لے ادارے کے قیام، عمل اور فنڈ کے اجرا کے حوالے سے بھی بے شمار مسائل سامنے آتے ہیں مگر اداروں کے قیام کے بعد بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے ۔انسانی حقوق میں احترام آدمیت، وقار، مساوات اور انصاف، انسان دوستی، روشن خیالی اور اظہار رائے کی آزادی ،معلومات تک رسائی ،یکساں حقوق کا تحفظ ،روزگار صحت اور تعلیم کی سہولتیں غرض ہر وہ بنیادی ضرورت جو انسان کی پیدائش کے وقت سے ہی شروع ہو جاتی ہیں کوحقوق ملنا ضروری ہیںمگر اس وقت جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔سب سے پہلے اگر تحفظ کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ زندہ شخص پر تو چودہ ایف آئی آر درج ہوسکتی ہیں مگر اس کے مرنے کے بعد اس کی موت کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے بھی ہزاروں سوالات جنم لیتے ہیں۔بے روزگار کی وجہ سے خودکشی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ صحت کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ غربت کے ہاتھوں اپنا علاج بروقت نہ کروانے کی وجہ سے ذہنی طور پر پریشان ہیں اور صحت کے حوالے سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
معلومات کے حق کی رسائی کےلئے آپ کسی بھی سرکاری ڈویلپمنٹ فنڈ کے حوالے سے معلومات لینا چاہیں وہ آپ کو منفی سوچ کا فرد تصور کرلے گا ۔آپ کے لئے معلومات تک رسائی ناممکن ہوگی پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ ہربچہ پانچ سال سے 16 تک کے تمام بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر آج بھی بچے کوڑے سے کوڑاکرکٹ اکھٹا کرتے،کھیتوں ،گھروں ،ہوٹلوں، ورکشاپوں میں کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔آئین کہتا ہےکہ معذوروں کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں گی لیکن آج بھی ریاست کی طرف سے کوئی وظیفہ، مناسب راستے یا تعلیم کی سہولیات کا فقدان ہے، آئین کہتا ہے کہ جمہوریت کا فروغ ہوگا اور جمہوری فیصلے ہوں گے مگر لوکل گورنمنٹ کے الیکشن تسلسل سے سالوں سال سے نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے خواتین جمہوری عمل میں موثر طور پر شرکت نہیں کر سکیں اور بہت ساری قانون سازی میں خواتین کی مشاورت شامل نہیں ہوتی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے پنجاب میں 2018 میں انسانی حقوق تحفظ کی بنیاد پر حقوق مہیا کرنے کے لیے پالیسی بھی ترتیب دی گئی ۔کاغذوں میں تو کمزور گروہوں کے تحفظ اور معاشی و معاشرتی ،ثقافتی حقوق کو تحفظ دیا گیا مگر پالیسیوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے زیادہ بہتر ی نہیں رہی۔ اگر ہم خواتین کے حوالے سے جائزہ لیں تو قانون برائے تحفظ تشدد خواتین 2016 میں منظور ہوا لیکن 25 نومبر سے شروع ہونے والی خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کی مہم کا اختتام 10دسمبر کو ہوتا ہے، صرف انہی دنوں میں جائزہ لیا جائے کہ خواتین پر تشدد کے کتنے واقعات ہوئے، کتنی خواتین کا قتل ،زیادتی کے کتنے کیس رپوٹ ہوئے۔
خواتین کو وراثت میں حق قانون میںموجود ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے سے انسانی حقوق کی پامالی کا عنصر موجود ہے۔ قوانین کو سراہا تو جاسکتا ہےمگر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج بھی کم عمری کی شادیاں، اقلیتوں اور معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کے لئے عملی طور پر اقدامات کا فقدان ہے۔دوسری جانب جائزہ لیں کہ عالمی سطح پر پوری دنیا میں کشمیری عوام پر بھارت نے بربریت کے پہاڑ توڑ دیے حقوق کے علمبرداروں کی کشمیری عوام کے دکھ اور درد کا احساس کب ہو گا ۔کشمیری آج بھی سوال کرتے ہیں کہ دنیا کے منصفو !انصاف کے علمبرداروں، کشمیر میں لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کب ہوگا انہیں انصاف کب ملے گا ؟انسانی حقوق تو ہر لمحہ فرض ہیں۔ دس دسمبر کو تو رپورٹ شائع ہونی چاہیے کہ جو قوانین اور ادارے قائم کئے گئےان سے کتنے لوگوں کو فائدہ ہوا کیسے ریلیف حاصل ہوا اور مزید قانون سازی کس کس جگہ پر ضروری ہے اور عام انسانوں کو آگاہی کے ساتھ موثر قانون سازی اور قوانین اس پر عملدرآمد کے حوالے سے طریقہ کار سے آگاہی ہونی چاہیے۔ پر امن معاشرے کے قیام کے لے حقوق کے تحفظ کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ حکومت اس طرح کا قانون بنائے کہ ہر انسان پابند ہو کہ ہم کسی انسان کے ساتھ ناانصافی نہیں کریں گے اور اس کی ابتدا اپنے گھر ہمسایوں، محلے داروں سے کریں۔ ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے تو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔

پنجاب حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کا حصہ نہیں بنے گی، وزیر داخلہ پنجاب

Shakira could face 8 years in jail

پاکستان میں صحت عامہ کی صورتحال تباہی کے دہانے پر ہے، عالمی ادارہ صحت

Tags:
Leave a Comment
×

Hello!

Click one of our contacts below to chat on WhatsApp

× How can I help you?