ملتان (بیٹھک سپیشل)بانی پاکستان، محمد علی جناحؒ نے 13 دسمبر 1947 کو گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں بی بی سی کے نامہ نگار رابرٹ اسٹمسن سے بات کی جس میں انہوں نے فلسطین، مسلم لیگ، دولت مشترکہ میں پاکستان کی شمولیت اور کشمیر کے تنازعات جیسے مختلف مسائل پر بات کی۔ اسی انٹرویو میں کشمیر کے بارے میں قائداعظم کا بیان جو کشمیر کے بارے میں انکے موقف کی مکمل وضاحت کرتا ہے اور اس مسئلے کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے اسکے بارے میں وہ کیا سوچتے تھے، یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ہندوستانی حکومت نے پاکستان ڈومینین کو مطلع، مشورہ اور ریفر کئے بغیر کشمیر کے ساتھ اپناالحاق کرتے ہوئے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دی ہیں۔ ہم اس الحاق کو قبول نہ کرنے کی اپنی وجوہات پہلے ہی بتا چکے ہیں کیونکہ یہ اخلاقی اور قانونی دونوں طور پر ناقابل قبول ہے۔ اسکے باوجود ہندوستانی حکومت کا موجودہ (کشمیری) حکومت اور انتظامیہ کو تقویت دے کر کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا مقصد نہیں، جس کی مکمل طور پر کشمیر کے عوام کی ایک بھاری اکثریت جن میں سے 95 فیصد مسلمان ہیں مخالف ہے اور (ہندوستانی حکومت) حقیقی طور پر یہ چاہتی ہے کہ پاکستان تعاون کرے تو پھر پہلی بات جس پر اتفاق ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ وہ وہاں موجود غیرمقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنی فوجیں واپس بلا لے۔کشمیر کی اصل جنگ کشمیری عوام کی ایک ٹھوس تنظیم نے لڑی ہے اور آزاد فورس بنیادی طور پر کشمیری عوام پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہزاروں سابق فوجی ہیں جنہوں نے پچھلی جنگ میں اپنے آپ کو نمایاں کیا جبکہ لاکھوں (کشمیری) لوگ انکے ساتھ ہیں اور انکی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ قبائلیوں کی ایک خاص تعداد اس حقیقت کی بنا پر کہ وہ سرحد پر لوگوں کے قریبی رشتہ دار ہیں اور کچھ اور ہیں جو ریاست کی بے بس عوام پر ڈوگرہ حکومت کے جبر اور استبداد سے اشتعال میں آگئے تھے لڑائی میں حصہ لے رہے ہیںلیکن محض یہ نعرہ دہرانے سے کہ قبائلیوں اور حملہ آوروں کو پہلے بھگایا جائے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اسکا واحد حل یہ ہے کہ ہندوستانی فوجیوں کو بشمول غیر مقامی لوگوں جو بلاشبہ وہاں موجود ہیں کے ساتھ واپس بلا لیا جائے ۔ حکومت پاکستان سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ وہ یا تو بھارت کے کشمیر پر قبضے کو قبول کر لے یا اسے برقرار رکھنے میں فریق بنے۔مزید برآں موجودہ (کشمیری) انتظامیہ خالصتاً ایک منصوبے کے ایک حصے کے طور پر بنائی گئی ہے اور یہ انڈیا ڈومینین کی محض کٹھ پتلی انتظامیہ ہے۔ یہ لوگوں کے لیے مکمل طور پر ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ ان کی نمائندگی نہیں کرتی، اور اس لیے اسے کشمیر کی حقیقی نمائندہ حکومت سے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ تب تک رائے شماری کا معاملہ زیر بحث نہیں آتا یہ محض عوام کو گمراہ کرنے کا نعرہ ہے۔کشمیر تاریخی، جغرافیائی اور اقتصادی طور پر پاکستان کا حصہ ہے اور یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور ایسا سوچنا غیر فطری اور مصنوعی ہو گا کہ اس (کشمیر) کا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ 95 مسلمان کبھی بھی اس پر متفق نہیں ہوں گے اور اگر کسی ہتھکنڈے، جھانسے اور عوام پر ظلم و ستم سے ہندوستان کے حق میں کوئی مصنوعی فیصلہ آ جائے تو کشمیر میں امن قائم نہیں ہو گا اور جب تک کشمیر پاکستان ڈومینین میں شامل نہیں ہوتا دونوں ڈومینینز کے درمیان امن نہیں ہو گا اور یہ نہ صرف دونوں سسٹر ڈومینینز کے لیے بلکہ عالمی حالات کے لیے خطرہ بن جائے گا۔اگر واقعی ہندوستان کا مطلب یہ ہے کہ وہ وہاں صرف کشمیر کے لوگوں کی حفاظت کے لیے گیا ہے، تو یہ مقصد دونوں ڈومینینز کے درمیان معاہدے کے ذریعے ایک مقبول، نمائندہ اور حقیقی حکومت اور انتظامیہ کے قیام سے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ حکومت کشمیر کی ایک مناسب طریقے سے تشکیل شدہ حکومت کے طور پر فیصلے کرے گی۔ زیڈ ایچ زیدی کے مرتب کردہ محمد علی جناح پیپرز میں چھپنے والے پیپر مشکلات کے خلاف جنگ سے اقتباس۔

’’ہندوستان کا کشمیر سے الحاق ناقابل قبول‘‘پاکستان آج بھی قائداعظم کے مؤقف پر قائم
مزید جانیں
مزید پڑھیں
ملتان ( خصوصی رپورٹر,بی زیڈ یو )بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کا اجلاس زیرصدارت پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی منعقد ہوا۔ اجلاسمیں سینڈیکیٹ ممبران جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم سابق وائس چانسلر علامہ اقبال مزید پڑھیں