
ملتان( عبد الستار بلوچ) حکومت کےخلاف تحریک عدم اعتماد پہ شکوک کے سائے ہیں تونواز لیگ اور ق لیگ میں بداعتمادی ۔پی پی پی کارڈ چھپائے مگر پراعتمادنظر آرہی ہے لیکن ایم کیو ایم اور باپ سلیکٹرز کے صاف اشارے کے منتظراور تذبذب میں ہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لانے کی اصولی منظوری کے بعد حکمران جماعت تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں سے باقاعدہ روابط شروع کردیے ہیں – آصف علی زرداری ، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان چودھری برادران سے مل چکے-
مسلم لیگ نواز ایم کیو ایم اور ترین گروپ سے رابطے کررہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ ق اوربلوچستان عوامی پارٹی سے رابطے میں ہے لیکن حکومت کےخلاف تحریک اعتماد کی کامیابی پر شکوک شبہات کے سائے گہرے ہوتے نظر آرہے ہیں-مسلم لیگ نواز کی قیادت کے اندر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے حوالے سے دھیمے لہجے میں شکوک کا اظہار ہورہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی مرکزی نائب صدر نے گڑشتہ روز اسلام آباد میں ہائیکورٹ میں ایک کیس میں حاضری کے بعد صحافیوں سے بات چیت کے دوران معنی خیز بیان دیا کہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانا خطرات سے خالی نہیں ہے اور انھوں نے اسے رسکی عمل قرار دے ڈالا ۔انکے اس بیان نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے اندر تحریک اعتماد کی کامیابی پہ شکوک کا اظہار قرار دیا جارہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے انتہائی باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ چودھری بردران کو پاکستان مسلم لیگ نواز پہ اعتماد نہیں ہے اور وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کوضامن بناکر کچھ اور ضمانت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کی قیادت ایک دوراہے پہ کھڑی ہے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی میدان میں ناکامیوں اور عوام کو ڈیلیور کرنے سے قاصر رہنے سے جو غیرمقبولیت ہے اس کا حصّہ بنکر آئندہ کے انتخابات میں عوام کے غم و غصے کا نشانہ نہیں بننا چاہتی ،دوسری طرف اسے نواز لیگ میں رہتے ہوئے شریف برادران کی طرف سے بار بار عہد شکنی کے تجربے کی روشنی میں نواز لیگ پہ اعتماد نہیں ہے کہ وہ پنجاب کی چیف منسٹر شپ انکے حوالے کرنے میں سنجیدہ ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی – باپ اور ایم کیو ایم میں تاحال ت?ذبذب کی فضا ہے۔ باپ کے ایک سینٹر کے بقول ان کے سرپستوں نے تاحال “غیرجانبدار” ہونے کا بتایا ہے اور ان سے کہا جارہا ہے وہ اپنی لڑائی آپ لڑیں۔ لیکن باپ کو ایسے آثار نہیں ملے ہیں جن سے سلیکٹر کی روش کا صاف صاف پتا چل سکے۔ ایم کیو ایم کی اپوزیشن سے دوری اور عدم اعتماد بارے تذبذب کے پیچھے ایک تو شہری سندھ کے علاقوں میں اس کے ووٹر اور حمایتیوں کا سندھ میں حکمران جماعت پی پی پی سے تصادم اور تنازع موجود ہے اور اسے یہ خوف بھی لاحق ہے اگر اپوزیشن الائنس اس کی مدد سے وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹانے میں قائم ہوگیا تو فارمولے کے مطابق وفاق میں بھی پی پی پی کی قیادت میں حکومت بنے گی اور اس صورت میں اس کے خدشات اور بڑھ جاتے ہیں۔
پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری حکومت کے خلاف تحریک اعتماد کی کامیابی کے لیے بہت پراع?ماد ہیں- وہ تو یہاں تک کہہ رہے کہ 27 فروری کو شروع ہونے والا ان کا لاںگ مارچ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی اپنا مقصد حاصل کرلے گا۔ ان کو یقین ہے کہ عمران خان سلیکٹرز کے لیے اثاثہ کی بجائے “بوجھ” بن چکے ہیں اور انہیں اس بوجھ کو اتارے جانے کی کوششوں پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کیا نواز لیگ پی پی پی بارے مشکوک متحدہ کے خدشات کو دور کرنے میں کامیاب رہے گی؟ کیا پی پی پی نواز لیگ بارے ق لیگ کی بداعتمادی کو دور کرپائے گی؟ سب سے بڑھ کر اپوزیشن کی کسی ایک جماعت نے تحریک عدم اعتماد لانے کی واضح تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اس سے بھی عدم اعتماد اور شکوک بڑھے ہیں۔ ترپ کا پتا کہا جارہا ہے کہ وہ ق لیگ اور باپ کے پاس ہے اگر یہ دونوں جماعتیں پاکستان تحریک انصاف سے الگ ہونے کا فیصلہ آج یا کل اعلانیہ کرلیتی ہے تو اس صورت میں حکومت کو گرنے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔
Leave a Comment