
چیف منسٹر پنجاب سردار عثمان بزدار نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ لاہور کے موقعہ پہ ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو مکمل طور پہ بااختیار اور فعال بنانے کا دعوی کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے بااختیار ہونے کی وجہ سے وہاں کے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پہ حل کرنے کا وعدہ بھی شرمندہ تعبیر ہوگیا ہے۔ لیکن جب ہم زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو صورت حال اس کے برخلاف نظر آتی ہے – روزنامہ” بیٹھک“ ملتان میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق جنوبی پنجاب میں محکمہ صحت سمیت اکثر شعبوں میں افسران کو مستقل چارج دینے کی بجائے دیگر افسران کو عارضی چارج دیکر کام چلایا جارہا ہے۔ چلڈرن ہسپتال، انسٹیٹیوٹ آف ڈینسٹری نشتر مستقل سربراہوں سے محروم ہیں۔ کئی شعبوں م?ں اربوں روپے کی جدید مشینری یونہی پڑی پڑی بیکار ہورہی ہے۔ اکثر محکموں کے سیکرٹریز فوٹو سیشن اور نمائشی دوروں پہ زیادہ زور دے رہے ہیں جبکہ ان کی طرف سے انتظامی کنٹرول اور شکایات پہ فوری نوٹس دیکھے جانے کا فقدان نظر آرہا ہے۔ عوام کی بڑی تعداد کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اے ڈی سی آر، اے سی صاحبان ، تحصیلدار سے لیکر پٹواری دفاتر میں روز خوار ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں تعینات سیکرٹریوں سے عوام کا ملاقات مشکل ترین کام ہے۔ صحت، تعلیم، پولیس ، ریونیو کے محکموں میں کوئی خاص بہتری دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ اس صورت حال نے عوام کے اندر اس تاثر کو پختہ کیا ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو جنوبی پنجاب کی عوام کے احساس محرومی کا مداوا قرار دینے کے دعوے قطعی درست نہیں ہیں۔ چیف منسٹر پنجاب سردار عثمان بزار نے ہر دوماہ میں صوبائی کابینہ کا ایک اجلاس جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں منعقد کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ جنوبی پنجاب میں تعینات ایڈیشنل چیف سیکرٹری صحت کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ انہیں ملتان نشتر ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پہ شعبہ میڈیکولیگل میں ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لیے مضروبوں کو لگی ضربوں کی نوعیت نہ درج کرنے ، ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پہ ہونے والے نارواسلوک کی خبر بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے دفتر تک آنے والی شکایتوں پہ کوئی کاروائی عمل میں آتی ہے۔ اب تک جنوبی پنجاب میں محکمہ بلڈنگز، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ ، بلدیاتی اداروں شدید بدانتظامی اور مالیاتی بے ضابطگیوں کی سینکڑوں بار نشاندہی کی گئی ہے لیکن اب تک ان محکموں میں کوئی بہتری دیکھنے کو نہیں ملی۔ چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کے لیے یہ صورت حال پریشان کن ہونی چاہیے
اور ان کو جنوبی پنجاب میں صوبائی اور بلدیاتی اداروں میں انتظامی اور مالیاتی کنٹرول کی بدتر صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے دکھائی دینے والے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ چیف منسٹر سردار عثمان بزدار کو سب اچھا کی رپورٹ دینے والے جی حضوریوں سے ہٹ کر بھی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی حالت زار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے وگرنہ لوگ تبدیلی سرکار کے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو بااختیار اور فعال بنانے کے دعوے کو مبالغہ پہ محمول سمجھیں گے۔
Leave a Comment