عوام بنام بھگوان

سن نوے کی دہائی میں ہمسایہ ملک میں بننے والی ایک فیچر فلم دیکھی تھی۔ نام تو یاد نہیں آ رہا مگر اس فلم کے ہیرو کا ڈائیلاگ بڑا مشہور بھی ہوا اور یاد گار ہے کہ ” اپن کو لگتا ہے کہ اپن ہی بھگوان ہے”. یہی حال ہمارے حکمرانوں اور ان کی ٹیم میں شامل مافیا کا ہے، جو خود کو بھگوان یعنی خدا سمجھ ہی نہیں بلکہ بن بیٹھا ہے، ان حکومتی بھگوانوں کی مجموعی حالت یہ ہے کہ کوئی ڈھنگ کا فیصلہ نہیں کر سکتے، جب وقت گزر جاتا ہے تو ان کو اچانک سے جاگ آتی ہے کہ اوہ۔۔۔۔یہ کیا ہو گیا اور کرنا تو یہ تھا، اب منسٹر انڈسٹری رزاق داو¿د علیہ رحم کو ہی لے لیجیے، انہوں نے گزشتہ سال حکومت کو باور کرایا کہ ملک میں چینی بہت ہے، بلکہ فالتو بھی موجود ہے، مزید باہر سے ملکی ضروریات کے مطابق چینی امپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر شوگر ملز والے فالتو چینی ایکسپورٹ بھی کر دیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، چنانچہ وزیر اعظم عمران خان نے منسٹر کی رپورٹ کی روشنی میں اطمینان کر لیا،اور شوگر مافیا کی درخواست پر شوگر انڈسٹری کے کرتا دھرتاو¿ں کو چینی باہر بھجوانے کی اجازت دے دی، جونہی چینی باہر گئی، ملک میں چینی کی قیمت کو پر لگ گئے اور چینی 110 روپے فی کلو گرام تک جا پہنچی، حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے، عوام کے احتجاج میں شدت آنے لگی،
مجبوری میں حکومت نے چینی کثیر زرمبادلہ خرچ کر کے باہر سے منگوائی، مگر شوگر ملز مافیا اور مالکان نے اربوں روپے کما لئے، کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی کہ جناب وزیر صاحب یہ کیا کیا ہے آپ نے، کون پوچھے ان سے ؟ کیونکہ آپ تو بھگوان بن چکے ہیں، بھلا کسی بھگوان سے بھی پوچھ گچھ کی جا سکتی ہے، بعد ازاں وزیر موصوف نے یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے کہ انہیں شوگر ملز ایسوسی ایشن نے غلط اعدادوشمار دئیے تھے، غلط فہمی کی وجہ سے چینی باہر سے منگوائی گئی، وطن عزیز کے اربوں روپے کا نقصان ہو گیا، زرمبادلہ خرچ ہو گیا۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی پھر سے اڑ گئی، کچھ نہیں ہو سکا وزیر موصوف کے خلاف، مگر آپ تو بھگوان نکلے، کچھ ایسی ہی صورتحال کھاد کی ہے، دس لاکھ ٹن کھاد سمگل کر دی گئی اور یہاں کسانوں کو کھاد کے لئے لائن اپ کر دیا گیا، ان بھگوانوں سے کون پوچھے کہ بھلے لوگو ہر کام وقت پر اچھا لگتا ہے، کھاد کی فراہمی کس کا کام تھا، ظاہر ہے حکومت کا مگر حکومت میں شامل بھگوان ٹائپ وزراءصاحبان نے گندم کی کاشت کو مذاق بنا کر رکھ دیا اور گندم کا پیداواری ٹارگٹ پورا اترتا دکھائی نہیں دے رہا، اللہ خیر کرے، گندم کی قیمت بھی آسمان پر چڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔
بھگوان نما شخصیت کیسی ہوتی ہیں بھارت کے ایک سابق وزیر اعظم کا قصہ بھی سن  لیں، واقعہ یوں ہے کہ کرایہ ادا نہ کرنے پر 94 سالہ شخص کو مالک مکان نے کرائے کے مکان سے باہر پھینک دیا۔ بوڑھے کے پاس ایک پرانے بستر، المونیم کے کچھ برتن، پلاسٹک کی بالٹی اور ایک مگ وغیرہ کے علاوہ شاید ہی کوئی سامان تھا۔ بوڑھے نے مالک سے درخواست کی کہ کرایہ ادا کرنے کے لیے اسے کچھ وقت دیا جائے۔  پڑوسیوں کو بھی بوڑھے پر ترس آیا اور انہوں نے مالک مکان کو کرایہ ادا کرنے کے لیے کچھ وقت دینے پر راضی کیا۔  مالک مکان نے ہچکچاتے ہوئے اسے کرایہ ادا کرنے کے لیے کچھ وقت دیا۔ بوڑھا اپنا سامان اندر لے گیا۔وہاں سے گزرنے والے ایک صحافی نے رک کر سارا منظر دیکھا۔  اس نے سوچا کہ اس معاملے کو اپنے اخبار میں شائع کرنا مفید ہوگا۔یہاں تک کہ اس نے ایک سرخی بھی سوچی، “ظالم مالک مکان نے پیسے کے لیے بوڑھے کو کرائے کے مکان سے نکال دیا۔”  پھر اس نے بوڑھے کرایہ دار کی کچھ تصویریں لیں اور کرائے کے مکان کی کچھ تصویریں بھی لیں۔ صحافی نے جا کر اپنے پریس مالک کو واقعہ کے بارے میں بتایا۔  پریس کے مالک نے تصویروں کو دیکھا اور چونک گیا۔  اس نے صحافی سے پوچھا، کیا وہ بوڑھے کو جانتے ہیں؟صحافی نے کہا کہ نہیں۔اگلے دن اخبار کے صفحہ اول پر بڑی خبر چھپی۔عنوان تھا “گلزاری لال نندا، ہندوستان کے سابق وزیر اعظم، ایک دکھی زندگی گزار رہے ہیں”۔ خبر میں مزید لکھا گیا کہ سابق وزیراعظم کس طرح کرایہ ادا کرنے سے قاصر رہے اور انہیں کیسے گھر سے نکال دیا گیا۔  تبصرہ کیا گیا کہ آج کل فریشرز بھی بہت پیسے کما لیتے ہیں۔  جب کہ ایک شخص جو دو بار سابق وزیر اعظم رہ چکا ہے اور طویل عرصے تک مرکزی وزیر بھی رہا ہے، اس کے پاس اپنا گھر بھی نہیں ہے۔
دراصل گلزاری لال نندا کو 500 روپے ماہانہ الاو¿نس دستیاب تھا۔لیکن اس نے یہ رقم یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ وہ آزادی بھتے کے لیے نہیں لڑتے تھے۔ بعد میں دوستوں نے اسے یہ کہہ کر قبول کرنے پر مجبور کیا کہ اس کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔  اس رقم سے وہ اپنا کرایہ ادا کر کے گزارہ کرتا تھا۔
 اگلے دن موجودہ وزیراعظم نے وزراء اور عہدیداروں کو گاڑیوں کے بیڑے کے ساتھ ان کے گھروں کو روانہ کیا۔ اتنی وی آئی پی گاڑیوں کا بیڑا دیکھ کر مالک مکان دنگ رہ گیا۔  تب ہی انہیں معلوم ہوا کہ ان کے کرایہ دار مسٹر گلزاری لال نندا ہندوستان کے سابق وزیر اعظم تھے۔ زمیندار فوراً گلزاری لال نندا کے قدموں میں گر گیا۔عہدیداروں اور وی آئی پیز نے گلزاری لال نندا سے سرکاری رہائش اور دیگر سہولیات قبول کرنے کی درخواست کی۔ جناب گلزاری لال نندا نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش قبول نہیں کی کہ اس بڑھاپے میں ایسی سہولتوں کا کیا فائدہ۔  اپنی آخری سانس تک وہ ایک عام شہری کی طرح ایک سچے گاندھیائی کے طور پر زندگی بسر کرتے رہے۔ 1997 ءمیں حکومت نے انہیں 1997 ءمیں حکومت نے انہیں بھارت رتن سے نوازا، ہمیں بھگوانوں کی نہیں انسانوں کی ضرورت ہے، تاکہ عوام کا بھلا ہو سکے

Leave a Comment
×

Hello!

Click one of our contacts below to chat on WhatsApp

× How can I help you?