
ملتان(تجزیہ: عبد الستار بلوچ )امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اب اس بات پہ قائل ہوچکے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرائن اور اسکے دارالحکومت پہ حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔انکے بقول ان کے پاس اس بات پہ یقین کرنے کی وجوہات ہیں- اور ایسا یقین انہیں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سے ملنے والی معلومات کے بعد ہوا ہے۔ ڈیموکریٹ امریکی صدر جو بائیڈن جو عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور یمن میں فوجی مداخلتوں کے ذریعے سے وہاں پہ اپنے تئیں جمہوری حکومتوں کے خاتمے کے حامی رہے ،ٹرمپ کے مقابلے میں صدارتی الیکشن کے دوران اپنے آپ کو امریکی ڈیموکرٹیس میں امن کے حامیوں اور جنگ مخالف لوگوں میں شمار کراتے رہے۔ انھوں نے ٹرمپ کے جنگی بیانیے کی شدید مخالفت کی تھی اگرچہ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں حیرت انگیز طور پرکوئی جنگ نہیں چھیڑی تھی – امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے سے پہلی امریکی انتظامیہ کے افغانستان سے واپسی کے فیصلے پرتنقید کے باوجود عمل درآمد جاری رکھا اور افغان طالبان رجیم کابل پہ قبضے کے بعد سے وہ ابتک افغانستان پر اپنی پالیسی پہ قائم ہیں اور اس حوالے سے ملک کے اندر اور یورپ میں اپنے آپ پہ ہونے والی شدید ترین تنقید کو بھی نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ امریکی معشیت کو دوبارہ ترقی اور منافع کی راہ پہ ڈالنے کے حوالے سے افغانستان سے امریکاکی واپسی مناسب ترین اقدام ہے۔ وہ شام سمیت مشرق وسطیٰ میں اپنے مخالف ممالک میں بظاہر طاقت کے ذریعے رجیم تبدیل کرنے کی پالیسیوں میں بدلاو¿ لائے ہیں اور سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں کو یمن کا مسئلہ جنگ کی بجائے مذاکرات سے حل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں- ایران سے ایٹمی پروگرام پہ امریکی معاہدے کو وہ بحال کرچکے ہیں- ایسی خبریں بھی عام ہیں کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کو معمول پہ لانے کےلئے عراقی حکومت کےساتھ کام کررہے ہیں لیکن سنٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ کی سائیڈ پر ان کا رویہ ریپبلکنز سے کہیں زیادہ عقابی نظر آرہاہے۔انکی قیادت میں امریکاپہ یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ روس کو گھیرے میں لینے کے لیے ایک باقاعدہ جنگی پالیسی پہ عمل پیرا ہیں اور روس کے ارد گرد کے ممالک میں وہ اپنی فوجی طاقت کو مستحکم کرنے میں لگے ہیں – روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے واضح کیا ہے کہ اگر ناٹو اور امریکہ یوکرائن میں اپنی افواج بھیجیں گے تو اسے ریڈ لائن عبور کرنے سے تعبیر کیا جائے گا اور روس ہر قیمت پہ اس طرح کی پیش رفت کو ایڈوانس روکنے کی پیش بندی کررہا ہے۔ امریکی صدر جوئے بائیڈن نے اپنے بیان میں امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں کو جو اہمیت دی ہے اس سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر جوئے بائیڈن کہیں وہ غلطی تو نہیں کرنے جارہے ٹونی بلئیر اور جارج بش جونئیر نے عراق میں مہلک کیمائی ہتھیاروں کے وسیع ذخیرہ ہونے کی امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس رپورٹوں پر اعتماد کرکے کی تھی – برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کو تو وہاں کی عوام نے اس فاش غلطی اور جھوٹ بولنے پہ ” بش کا پوڈل” تک قرار دے ڈالا تھا۔ امریکی انتظامیہ میں اس وقت جنگ کے حامیوں کی اگثریت ہے اور ڈیموکریٹ لیفٹ اپوزیشن کافی کمزر ہے۔ یوکرائل کے مسئلے پہ امریکہ- روس تنازعہ عالمی منڈی پہ بھی اثرانداز ہورہا ہے اور عالممی منڈی میں تیل کی قیمت سو ڈالر فی بیرل ہوچکی ہے۔ جبکہ دیگر اجناس کی قیمتوں میں بھی اضافے کا رجحان صاف نظر آرہا ہے۔ اس طرح کی جیو پالیٹکس کے تناو¿ بھری فضا پاکستان جیسے ملکوں کی سست رو معشیت کے لیے ہرگز کوئی نیک شگون نہیں ہے – اگر امریکاروس سے جنگ کرنے کی طرف نکلتا ہے تو لامحالہ وہ پاکستان سے اس جنگ کا حصّہ بننے کو کہے گا جو پاکستان قطعی افورڈ کرنے کے قابل نہیں ہے۔عالمی سطح پہ یوکرائن کے تنازعے نے پاکستانی روپے پہ دباو¿ بڑھا دیا ہے اگر تیل 100 ڈالر فی بیرل سے اوپر جاتا ہے تو اس کے بدلے میں پاکستا کو لامحالہ ایک بار پھر تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا- دو روز پہلے تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بین الاضلاعی کرایوں میں 50 سے 250 روپے اضافہ ہوا ہے اور گھی کی قیمت میں یک مشت نوے روپے اضافہ ہونے کا امکان ہے۔- پاکستان پہلے ہی اپنی افغان پالیسی کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کی طرف سے سرد مہری کا شکار ہے۔ جو بائیڈن اور عمران خان کے درمیان ابھی تک باضابظہ رابطہ نہیں ہوا ہے جس کا شکوہ وزیراعظم عمران خان نے کئی بار کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کے پیچھے پاکستان کی مخصوص جیو پالٹیکس پالیسیوں کو قرار دیا تھا – یوکرائن کا مسئلہ شدید ہوتا ہے تو پاکستان کی آزمائش اور بڑھ جائے گی۔
Leave a Comment