
ملتان(سٹی رپورٹر)محکمہ پھاٹا کے افسران کے ساتھ ملی بھگت کرکے بااثر افراد نے ملتان شہر کے 3رہائشی علاقوں گلگشت،ممتاز آباد اور نیو ملتان میں 1 ہزار سے زائد ناجائز کمرشل تعمیرات کر لی ہیں۔ بااثر افراد نے عمارتوں پر عائد 4 ارب روپے کی کمرشلائزیشن فیس بھی خورد برد کرلی ہے۔ دوسری طرف ان مالکان نے تعمیرات کے دوران بلڈنگ بائی لاز کی بھی شدید خلاف ورزی کی ہے جو کہ فیسوں سے بھی زیادہ سنگین معاملہ ہے۔ غیر قانونی عمارتوں کی بہتات ہوئی تو پنجاب حکومت کو ہوش آگیا اور ان عمارتوں کےخلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں یہ معاملہ جب نیب کو ارسال کیا گیا تو نیب حکام نے متعلقہ اعلیٰ افسران کو یہ حکم دیا کہ ان عمارتوں پر عائد کمر شلائزیشن فیس سمیت دیگر واجبات کی سروے کرکے مفصل رپورٹ پیش کی جائے۔ جس پر پھاٹا کے ڈی جی نے ملتان آکر خود رپورٹ نیب میں پیش کی جس کے مطابق ان عمارتوں پر کمرشلائزیشن فیس کی مد میں 4 ارب روپے بنتے ہیں۔ باقی واجبات اسکے علاوہ ہیں ۔رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ 500کے قریب کمرشل عمارتوں کی تعداد گلگشت میں ہے۔ اسکے بعد 300 عمارتیں ممتاز آباد جبکہ 200کمرشل عمارتیں نیو ملتان میں تعمیر کی گئیں۔ تمام صورتحال واضح ہونے کے باوجود نیب حکام نے 2 سال سے ان عمارتوں کےخلاف کوئی ٹھوس ایکشن نہیں لیا۔ بااثر مالکان نے یہاں دے دلا کر خود کو بچا لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان عمارتوں کی تعمیر میں ملوث افسران و عملے نے عمارت کی نوعیت کے مطابق 1 لاکھ روپے سے 10 لاکھ روپے تک رقم وصول کی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض افسران نے پرائم لوکیشن پر دکانیں بھی نذرانے کے طور پر الاٹ کرائیں اور کچھ اہلکاروں مارکیٹ سے کم قیمت پر سستی دکانیں حاصل کیں ۔محکمہ پھاٹا کی ان عمارتوں کےخلاف کارووائی میں ناکامی کے بعد انکے خلاف مو¿ثر کارووائی کےلئے جب ان تینوں علاقوں کو ایم ڈی اے اور میونسپل کارپوریشن ملتان کے کنٹرول میں دینے کا فیصلہ کیا گیا تو پھاٹا میں بیٹھے اعلیٰ افسران نے مختلف قانونی پیچیدگیاں پیدا کرکے اس پلان کو بھی ناکام بنادیا۔ ان علاقوں میں صرف 2 کمرشل تعمیرات کےخلاف کارروائی کی گئی جو گلگشت میں ہوئی ۔یہ کارووائی بھی سیاسی مخالفت کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کے مدرسے کی 70 دکانوں پر مشتمل مارکیٹ اور ن لیگ کے مولوی سلطان کے سکول کی مارکیٹ کی 30 دکانوں کےخلاف کی گئی۔ دیگر کسی بھی عمارت کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔
Leave a Comment