
ملتان ( ارشد ملک )جامعہ زکریا، ایل ایل بی میگا کرپشن سیکنڈل کے ذمہ داروں کو بچانے کےلئے سنڈیکیٹ اجلاس میں انکوائری کمیٹی تجویز کرنے کے برعکس رجسٹرار نے من پسند غیر قانونی کمیٹی بنا دی، پروب کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ 30جنوری 2021کو وی سی ارسال کرنے کے باوجود منظم پلاننگ کے تحت ایک سال بعد سنڈیکیٹ میں پیش کی گئی اس پر ذمہ داران کا تعین کرنے کےلئے ہاﺅس نے انکوائری کمیٹی کی تجویز دی جس میں پرو وائس چانسلر ڈاکٹر علیم خان ، ڈاکٹر سیما محمود اور ڈاکٹر عمران جاوید کے نام دیے گئے مگر ان کی تجویز کے برعکس وائس چانسلر نے رجسٹرار اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کےلئے سینڈیکیٹ کے صرف ایک آئٹم، ایڈوانس پیرا کی منظوری دےکر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا، تفصیل کے مطابق جامعہ زکریا ایل ایل بی 3سالہ پروگرام پہلا سالانہ امتحان 2019میں بوگس فیس ووچرز کے علاوہ بوگس انرولمنٹ کے ذریعے یونیورسٹی کو تقریبا 50 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگایا گیا جس کے مرکزی کردار اے ڈی عامر، طارق اعوان ، ساجد عزیز، خالد ککرا ، مدثر مشتاق، وغیرہ نے رجسٹرار صہیب راشد خان اور ایمپلائز یونین کے صدر ملک صفدر کی آشیر باد سے لمٹ لا کالج ساہیوال ، ملتان لا کالج ساہیوال، قائداعظم لا کالج ساہیوال، محمڈن لا کالج ساہیوال، لیڈز یونیورسل لا کالج خانیوال، نور لا کالج ملتان، محمڈن لا کالج ملتان، فیوچر لا کالج ملتان، پروفیشنل لا کالج ملتان، ٹائمز لا کالج ملتان، ایان لا کالج ملتان، جسٹس لا اینڈ ایجوکیشن کالج مظفر گڑھ، شجاع آباد لا کالج شجاع آباد، پاکستان لا کالج پاکپتن، جسٹس لا کالج پاکپتن اور غیر الحاق شدہ و بوگس لا کالج پاکستان سکول آف لا پاکپتن کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مذکورہ کالجز کو ان کو الاٹ کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ انرولمنٹ جاری کر دیں۔ پروب کمیٹی کی رپورٹ کےمطابق 2 کالجز کی جس میں محمڈن لا کالج ملتان اور پاکستان لا کالج پاکپتن شامل ہیں بوگس فیس ووچرز کی نشاندہی کے بعد سابقہ 2 سے 3سال کی امتحانی فیس اور رجسٹریشن فیس چیک کرنے کی تجویز دی ہے اور اس بات خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بوگس فیس ووچرز والے فارم لینے کاسلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے۔واضح رہے کہ بوگس فیس ووچرز والے داخلہ فارم بذریعہ بنک وصول نہ ہوئے بلکہ متعلقہ ڈیلنگ اہلکار مدثر مشتاق کی طرف سے دستی وصول کیے گئے، علاوہ ازیں ایل ایل بی پہلے سالانہ امتحان 2019 میں شامل ہونے والے تقریبا 2 ہزار طلبہ کی سابقی سیشن 2015 اور 2016 میں رجسٹریشن فیس جمع کرائے بغیر بوگس انرولمنٹ کی گئی ہے جس کی فیس رجسٹریشن شیڈول کے مطابق تقریبا 20 کروڑ روپے بنتی ہے ڈکار لی گئی ان میں لمٹ لا کالج ساہیوال کی تقریبا ایک کروڑ 20 لاکھ روپے محمڈن لا کالج ساہیوال کی تقریبا ایک کروڑ سے زائد ، ٹاپر لا کالج ملتان کی تقریبا 60 لاکھ روپے ، نور لا کالج ملتان کی تقریبا ایک کروڑ 30 لاکھ روپے، لیڈز یونیورسل لا کالج خانیوال کی تقریبا 80لاکھ روپے ملتان لا کالج ساہیوال کی تقریبا ایک کروڑ روپے، جوہر لا کالج ساہیوال کی تقریبا 70 لاکھ روپے، محمڈن لا کالج ملتان کی تقریبا ایک کروڑ روپے سے زائد، عسکری لا کالج بورے والا کی تقریبا 50 لاکھ روپے، شجاع آباد لا کالج شجاع آباد کی تقریبا 20 لاکھ روپے، جسٹس لا کالج مظفرگڑھ کی تقریبا 50 لاکھ روپے، علامہ اقبال لا کالج ملتان کی تقریبا 50 لاکھ روپے سے زائد، سنٹرل لا کالج ملتان کی تقریبا 30 لاکھ روپے اور سپریم لا کالج ملتان کی رجسٹریشن فیس تقریبا 35 لاکھ روپے یونیورسٹی کے اکاﺅنٹ میں جمع کرانے کے بجائے دستی وصول کر کے ہڑپ کر لی گئی ہے جو کہ مزکورہ کالجز سے ریکور کر کے یونیورسٹی کے مالی خسارے کو کافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے مگر کرپٹ مافیا کے مبینہ سرپرست رجسٹرار صہیب راشد خان نے بڑی ہوشیاری سے 15 جنوری کو سینڈیکیٹ کے منعقدہ اجلاس میں ہاﺅس کی تجویز کردہ کمیٹی کے برعکس من پسند غیرقانونی اور کمزور انکوائری کمیٹی بنا کر کرپٹ مافیا کو بچانے کی دانستہ طور پر وائس چانسلر پروفیسر منصور اکبر کنڈی کو ساتھ ملا کر ایڈوانس پیرا صرف ایک آئیٹم نمبر 5.12 سے 5.15 منظور کروا کر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جس میں ایک متنازع ممبر محی الدین جو باسکٹ بال کا کوچ تعینات ہوا جسے بعد ازاں سابق کرپٹ ترین رجسٹرار ملک منیر نے پروٹوکول افسر بنوا دیا اور موصوف موجودہ رجسٹرار صہیب راشد کے بھی دست راست سمجھے جاتے ہیں کو انہی کی تجویز پر اس اہم کمیٹی کا ممبر بنایا گیا ہے حالانکہ ان کی بطور اسسٹنٹ رجسٹرار لیگل تقرری ہی غیر قانونی ہے۔
بیٹھک ذرائع کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر ناظم حسین لابر جو کہ ٹرانسپورٹ کمیٹی کے چیئرمین ہیں کی ناک کے نیچے کروڑوں روپے کی بے ظابطگیاں جا ری ہیں کو اس میگا سیکنڈل کوچھپانے کےلئے انکوائری کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ رجسٹرارہر حال میں کرپٹ مافیا کو بچانا چاہتے ہیں۔اس حوالے سے رابطے پر ناظم لابر نے روزنامہ بیٹھک کو بتایا کہ میرے علم میں لائے بغیر مجھے کمیٹی کا ممبر بنایا گیا، میں وائس چانسلر سے کل (پیر کو)مل کر درخواست کرونگا کہ پہلے والی کمیٹی میں سے کسی ممبر کو اس کمیٹی کا ممبر بنایا جائے۔ تعلیمی حلقوں نے وزیر اعظم پاکستان ، وزیر اعلی پنجاب اور چانسلر و گورنر پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ جامعہ زکریا کی بدنامی جا باعث بننے والے اور کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث ذمہ داروں کے خلاف قائم کی گئی انکوائری کمیٹی کوفوری ختم کر کے غیر جانبدار اور ہاﺅس کی تجویز کردہ کمیٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے تاکہ صحیح طور پر ذمہ داروں کا تعین کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔محی الدین نے روزنامہ بیٹھک کو اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ وہ کمیٹی کے ممبر نہیں بلکہ سیکرٹری بنائے گئے ہیں جس کا کام صرف کمیٹی کوریکارڈ فراہم کرناہے فیصلے کااختیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر کو16(IV) کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ملازم کو ایک سکیل کم یا زیادہ ذمہ داری سونپ دیں۔ بیٹھک ذرائع کی تحقیق کے مطابق یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق وائس چانسلر کو یہ اختیار صرف 6 ماہ کے لیے حاصل ہے جبکہ محی الدین بطور اسسٹنٹ رجسٹرار لیگل کی تعیناتی 6 ماہ سے زائد ہونے کی وجہ سے غیر قانونی ہے۔
ملتان ( ارشد ملک )جامعہ زکریا، ایل ایل بی میگا کرپشن سیکنڈل کے ذمہ داروں کو بچانے کےلئے سنڈیکیٹ اجلاس میں انکوائری کمیٹی تجویز کرنے کے برعکس رجسٹرار نے من پسند غیر قانونی کمیٹی بنا دی، پروب کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ 30جنوری 2021کو وی سی ارسال کرنے کے باوجود منظم پلاننگ کے تحت ایک سال بعد سنڈیکیٹ میں پیش کی گئی اس پر ذمہ داران کا تعین کرنے کےلئے ہاﺅس نے انکوائری کمیٹی کی تجویز دی جس میں پرو وائس چانسلر ڈاکٹر علیم خان ، ڈاکٹر سیما محمود اور ڈاکٹر عمران جاوید کے نام دیے گئے مگر ان کی تجویز کے برعکس وائس چانسلر نے رجسٹرار اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کےلئے سینڈیکیٹ کے صرف ایک آئٹم، ایڈوانس پیرا کی منظوری دےکر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا، تفصیل کے مطابق جامعہ زکریا ایل ایل بی 3سالہ پروگرام پہلا سالانہ امتحان 2019میں بوگس فیس ووچرز کے علاوہ بوگس انرولمنٹ کے ذریعے یونیورسٹی کو تقریبا 50 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگایا گیا جس کے مرکزی کردار اے ڈی عامر، طارق اعوان ، ساجد عزیز، خالد ککرا ، مدثر مشتاق، وغیرہ نے رجسٹرار صہیب راشد خان اور ایمپلائز یونین کے صدر ملک صفدر کی آشیر باد سے لمٹ لا کالج ساہیوال ، ملتان لا کالج ساہیوال، قائداعظم لا کالج ساہیوال، محمڈن لا کالج ساہیوال، لیڈز یونیورسل لا کالج خانیوال، نور لا کالج ملتان، محمڈن لا کالج ملتان، فیوچر لا کالج ملتان، پروفیشنل لا کالج ملتان، ٹائمز لا کالج ملتان، ایان لا کالج ملتان، جسٹس لا اینڈ ایجوکیشن کالج مظفر گڑھ، شجاع آباد لا کالج شجاع آباد، پاکستان لا کالج پاکپتن، جسٹس لا کالج پاکپتن اور غیر الحاق شدہ و بوگس لا کالج پاکستان سکول آف لا پاکپتن کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مذکورہ کالجز کو ان کو الاٹ کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ انرولمنٹ جاری کر دیں۔ پروب کمیٹی کی رپورٹ کےمطابق 2 کالجز کی جس میں محمڈن لا کالج ملتان اور پاکستان لا کالج پاکپتن شامل ہیں بوگس فیس ووچرز کی نشاندہی کے بعد سابقہ 2 سے 3سال کی امتحانی فیس اور رجسٹریشن فیس چیک کرنے کی تجویز دی ہے اور اس بات خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بوگس فیس ووچرز والے فارم لینے کاسلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے۔
واضح رہے کہ بوگس فیس ووچرز والے داخلہ فارم بذریعہ بنک وصول نہ ہوئے بلکہ متعلقہ ڈیلنگ اہلکار مدثر مشتاق کی طرف سے دستی وصول کیے گئے، علاوہ ازیں ایل ایل بی پہلے سالانہ امتحان 2019 میں شامل ہونے والے تقریبا 2 ہزار طلبہ کی سابقی سیشن 2015 اور 2016 میں رجسٹریشن فیس جمع کرائے بغیر بوگس انرولمنٹ کی گئی ہے جس کی فیس رجسٹریشن شیڈول کے مطابق تقریبا 20 کروڑ روپے بنتی ہے ڈکار لی گئی ان میں لمٹ لا کالج ساہیوال کی تقریبا ایک کروڑ 20 لاکھ روپے محمڈن لا کالج ساہیوال کی تقریبا ایک کروڑ سے زائد ، ٹاپر لا کالج ملتان کی تقریبا 60 لاکھ روپے ، نور لا کالج ملتان کی تقریبا ایک کروڑ 30 لاکھ روپے، لیڈز یونیورسل لا کالج خانیوال کی تقریبا 80لاکھ روپے ملتان لا کالج ساہیوال کی تقریبا ایک کروڑ روپے، جوہر لا کالج ساہیوال کی تقریبا 70 لاکھ روپے، محمڈن لا کالج ملتان کی تقریبا ایک کروڑ روپے سے زائد، عسکری لا کالج بورے والا کی تقریبا 50 لاکھ روپے، شجاع آباد لا کالج شجاع آباد کی تقریبا 20 لاکھ روپے، جسٹس لا کالج مظفرگڑھ کی تقریبا 50 لاکھ روپے، علامہ اقبال لا کالج ملتان کی تقریبا 50 لاکھ روپے سے زائد، سنٹرل لا کالج ملتان کی تقریبا 30 لاکھ روپے اور سپریم لا کالج ملتان کی رجسٹریشن فیس تقریبا 35 لاکھ روپے یونیورسٹی کے اکاﺅنٹ میں جمع کرانے کے بجائے دستی وصول کر کے ہڑپ کر لی گئی ہے جو کہ مزکورہ کالجز سے ریکور کر کے یونیورسٹی کے مالی خسارے کو کافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے مگر کرپٹ مافیا کے مبینہ سرپرست رجسٹرار صہیب راشد خان نے بڑی ہوشیاری سے 15 جنوری کو سینڈیکیٹ کے منعقدہ اجلاس میں ہاﺅس کی تجویز کردہ کمیٹی کے برعکس من پسند غیرقانونی اور کمزور انکوائری کمیٹی بنا کر کرپٹ مافیا کو بچانے کی دانستہ طور پر وائس چانسلر پروفیسر منصور اکبر کنڈی کو ساتھ ملا کر ایڈوانس پیرا صرف ایک آئیٹم نمبر 5.12 سے 5.15 منظور کروا کر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جس میں ایک متنازع ممبر محی الدین جو باسکٹ بال کا کوچ تعینات ہوا جسے بعد ازاں سابق کرپٹ ترین رجسٹرار ملک منیر نے پروٹوکول افسر بنوا دیا اور موصوف موجودہ رجسٹرار صہیب راشد کے بھی دست راست سمجھے جاتے ہیں کو انہی کی تجویز پر اس اہم کمیٹی کا ممبر بنایا گیا ہے حالانکہ ان کی بطور اسسٹنٹ رجسٹرار لیگل تقرری ہی غیر قانونی ہے۔
بیٹھک ذرائع کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر ناظم حسین لابر جو کہ ٹرانسپورٹ کمیٹی کے چیئرمین ہیں کی ناک کے نیچے کروڑوں روپے کی بے ظابطگیاں جا ری ہیں کو اس میگا سیکنڈل کوچھپانے کےلئے انکوائری کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ رجسٹرارہر حال میں کرپٹ مافیا کو بچانا چاہتے ہیں۔اس حوالے سے رابطے پر ناظم لابر نے روزنامہ بیٹھک کو بتایا کہ میرے علم میں لائے بغیر مجھے کمیٹی کا ممبر بنایا گیا، میں وائس چانسلر سے کل (پیر کو)مل کر درخواست کرونگا کہ پہلے والی کمیٹی میں سے کسی ممبر کو اس کمیٹی کا ممبر بنایا جائے۔ تعلیمی حلقوں نے وزیر اعظم پاکستان ، وزیر اعلی پنجاب اور چانسلر و گورنر پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ جامعہ زکریا کی بدنامی جا باعث بننے والے اور کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث ذمہ داروں کے خلاف قائم کی گئی انکوائری کمیٹی کوفوری ختم کر کے غیر جانبدار اور ہاﺅس کی تجویز کردہ کمیٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے تاکہ صحیح طور پر ذمہ داروں کا تعین کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔محی الدین نے روزنامہ بیٹھک کو اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ وہ کمیٹی کے ممبر نہیں بلکہ سیکرٹری بنائے گئے ہیں جس کا کام صرف کمیٹی کوریکارڈ فراہم کرناہے فیصلے کااختیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر کو16(IV) کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ملازم کو ایک سکیل کم یا زیادہ ذمہ داری سونپ دیں۔ بیٹھک ذرائع کی تحقیق کے مطابق یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق وائس چانسلر کو یہ اختیار صرف 6 ماہ کے لیے حاصل ہے جبکہ محی الدین بطور اسسٹنٹ رجسٹرار لیگل کی تعیناتی 6 ماہ سے زائد ہونے کی وجہ سے غیر قانونی ہے۔
Leave a Comment