
ملتان(ارشد بٹ)پنجاب حکومت نے ملتان سمیت صوبے بھر کی تمام میونسپل کارپوریشنز اور ضلع کونسلوں کے پچھلے میئرز و چیئرمینوں کےخلاف کرپشن کے نئے کیس بنانے کےلئے انکے ادوار کا دوبارہ آڈٹ کرانا شروع کردیا اس سے قبل ان اضلاع کی لوکل آڈٹ ٹیمیں آڈٹ مکمل کرچکی ہیں۔دوبارہ آڈٹ کےلئے ہر ضلع کاآڈٹ دوسرے اضلاع کی آڈٹ ٹیموں سے کرایا جارہاہے پہلی ٹیموں کے آڈٹ سے حکومت کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی تھی۔اب اپنے ہدف کوحاصل کرنے کےلئے دوسرے اضلاع کی آڈٹ ٹیموں کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کےلئے بھجوایاگیاہے۔ملتان میں ضلع کونسل میں سابق چیئرمین کے دور کا آڈٹ کرنے کے لئے میانوالی سے سپیشل ٹیم بھجوائی گئی ہے جبکہ میونسپل کارپوریشن ملتان کے سابق میئر کے دور کا دوبارہ آڈٹ بھکر کی آڈٹ ٹیم سے کرایا جا رہا ہے اس حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے کہ دوبارہ آڈٹ کرانے کا مقصد مسلم لیگ(ن)کے چیئرمینوں و میئرز پر کرپشن کے کیس بناکر ان کو اگلے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے سے روکنا ہے یہ سپیشل آڈٹ ملتان سمیت پنجاب بھر کے اضلاع اور شہروں میں بیک وقت شروع کیا گیا ہے۔متعلقہ آڈٹ ٹیموں کو اپنی مفصل رپورٹ اگلے بلدیاتی الیکشن سے قبل فائنل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔موجودہ حکومت نے ملتان سمیت پنجاب بھر کے میئرز اور ضلع کونسلوں کے چیئرمینوں کے خلاف دوبارہ آڈٹ کرانے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب حکومت کی طرف سے اپنی پارٹی کی بلدیاتی الیکشن میں پوزیشن جانچنے کے لئے مختلف سروے اور ایجنسیوں سے رپورٹ لی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن و دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی پوزیشن بہت مضبوط ہے اس کے بعد یہ پلاننگ کی گئی کہ کرپشن کے نئے کیس بناکر مضبوط امیدواروں کو منظر سے آﺅٹ کیا جائے حکومت نے وہی طریقہ اختیار کیا جو اس نے نیب کے قابو نہ آنےوالے اپوزیشن رہنماﺅں کو گرفت میں لانے کے لئے ایف آئی اے کو استعمال کرنا شروع کیا دوبارہ آڈٹ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے حکومت نے آڈٹ ٹیموں سے مرضی کی رپورٹ بنوانے کے لئے ان ٹیموں میں من پسند افسران کو لگانے کے بعد ان کو ایک طے شدہ ٹاسک دیا اس حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے کہ آڈٹ رپورٹس مکمل ہونے کے بعد مبینہ طور پر ملوث حکومت مخالف منتخب بلدیاتی نمائندوں کےخلاف کرپشن و دیگر الزامات کی روشنی میں فوجداری مقدمے بنا کر ان کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے ملتان سمیت پنجاب کے چند شہروں کے میئرز اور چیئرمینوں کےخلاف کرپشن کے الزامات میں پہلے ہی مقدمات چلائے جارہے ہیں۔
Leave a Comment