
کاٹن گریڈنگ سسٹم کے نفاذ کاآغاز
ساجد محمود
کپاس کی فصل کو بین الاقوامی سطح پر خاص اہمیت حاصل ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے کپاس بطور خام مال استعمال ہوتی ہے۔ کپاس سے دھاگہ اور پھر دھاگےسے کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس فطری طور پر اعلی خصوصیات کی حامل ہے لیکن بدقسمتی سے معیاری اقدامات کی ناقص منصوبہ بندی، غیر مناسب مارکیٹنگ سسٹم، پریمیم اور ڈسکاؤنٹ پر مبنی کپاس کی قیمتوں کے عدم تعین کے باعث خام روئی اپنی اعلی خصوصیات کی محرومی کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی تیار کردہ مصنوعات کا معیار اور اس کی پائیداری میں وہ کردار ادا نہیں کر رہی جو بین الاقوامی مارکیٹ کے پیرامیٹرز اور سٹینڈرڈز پر پورا اتر سکے۔ اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں انڈیا، بنگلادیش، ویتنام، ترکی، جرمنی ودیگر مسابقتی ممالک کی صف میں کھڑا ہونے اور ٹیکسٹائل مصنوعات کے ذریعے اپنی برآمدات میں دوگنا یا تین گنا اضافہ کے لئے ہمیں اعلی کوالٹی کی کپاس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کاٹن کے گریڈنگ اور سٹینڈرڈائزیشن سسٹم میں جدید طرز پر اصلاحات لانا ہوں گی۔ پاکستان میں غالباًچار دہائی قبل 80 کی دہائی میں کپا س کی گریڈنگ یعنی اس کی درجہ بندی پر کام کا آغاز ہوا جس کا مقصد کسان کو اس کی کپاس کی کوالٹی کے اعتبار سے مناسب قیمت کی ادائیگی اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو معیاری کپاس کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا اس میں کپاس کی سٹینڈرڈائزیشن کے ساتھ ساتھ جننگ فیکٹریز کے لئے بھی کپاس کی کوالٹی کو برقرار رکھنے کے لئے پیرامیٹرز تشکیل دئیے گئے تاکہ جننگ فیکٹریوں میں آلودگی ومکسنگ سے پاک خالص روئی حاصل ہوسکے۔جسکی وجہ سے نہ صرف کسان کو اس کی پھٹی کی کوالٹی کے مطابق معاوضہ ملنا شروع ہوا بلکہ اس کے ساتھ ٹیکسٹائل سیکٹر کو اس کے معیار کی کپاس کی فراہمی کا آغاز بھی ہوا جس کے ذریعے پاکستان نے معیاری کپاس برآمد کر کے کثیر زر مبادلہ بھی کمایامگربعد ازاں بدقسمتی سے 90 کی دہائی کے وسط میں حکومتی بے توجہی اور متعلقہ اداروں کی لاپرواہی وغفلت کی بنا پردرجہ بندی کا نظام اپنی افادیت اور پہچان کھو بیٹھا۔ نتیجتاً روئی کا نہ کوئی نام اور نہ ہی کوالٹی کے اعتبار سے پہچان باقی رہی جس سے نہ صرف ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مصنوعات کی کوالٹی متاثر ہوئی بلکہ ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی دیگر مندرجہ بالامذکورہ ممالک سے پیچھے رہ گئے اور ہماری برآمدات میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی جس کی وجہ سے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کوضرورت کے مطابق معیاری کپاس درآمد کرنے پر کثیر زر مبادلہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے جو معاشی اعتبار سے دلدل میں پھنسے ہمارے جیسے غریب ملک کے خزانے پر بڑا بوجھ ہے۔ اسی لئے آج نہ ہی کسان کو معیار کے مطابق پھٹی کی قیمت مل رہی ہے اور نہ ہی ٹیکسٹائل سیکٹر کو کپاس کی فراہمی انٹرنیشنل معیار کے مطابق مل رہی ہے۔ آج ہمارے ملک میں کاٹن کسی بھی سٹینڈرڈ،کوالٹی اور شناخت کے بغیر یعنی بے نامی کاروبار کے ذریعہ سے فروخت کی جا رہی ہے۔ گدھے گھوڑے میں بغیر کسی امتیاز کے مارکیٹ میں ایک جیسا روئی کا ریٹ مل رہا ہے۔ اس قدر ابتر اور گھمبیر حالات میں مارکیٹ کے داؤ پیچ سے نبرد آزما ہونے کے لئے دو سال پہلے چیئرمین پاکستان کاٹن بروکرز ایسوسی ایشن میجر(ر) محمد کاشف اسلام اور انکی ٹیم نے اپنی ہمت ولگن سے کاٹن گریڈنگ اور سٹینڈرڈائزیشن کے دوبارہ عملی نفاذ کے لئے عابد زیدی سے مشاورت شروع کی جو 80 کی دہائی میں ہونے والی گریڈنگ اور سٹینڈرڈائزیشن کے پروگرام کو لاگو کرنے والی ٹیم کا حصہ تھےانہی خدمات کے سلسلہ میں انہیں 1986 میں پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے گولڈ میڈل سے نوازا تھا۔ انہوں نے اپنے دیرینہ ساتھیوں کو ایک چھت کے نیچے جمع کیا اور اس گریڈنگ پروگرام کے ابتدائی خدو خال تشکیل دئیے اور چیئرمین پاکستان PCBA اور ڈاکٹر تصور حسین ملک ڈائیریکٹر PCSI کو اعتماد میں لے کر اجتماعی کوششوں کا آغاز ہوا، اسطرح ایک خواب حقیقت کا روپ دھارنے لگا۔ اس اہم قدم اور گیم چینجر پلان کو دوبارہ سے لاگو کرنے کا بیڑہ پاکستان کاٹن بروکرز ایسوسی ایشن (PCBA) نے اٹھایااور اس گریڈڈ کاٹن کو پاکستان اور بیرون ملک میں مارکیٹ کرنے کے لیے ملک بھر سے کاٹن بروکرز نے لبیک کہا۔ نتیجتاً ارباب اختیار کپاس کی درجہ بندی و معیاری پیمانے مقرر کرنے کے لئے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔ PCBA نے اچھی اور بری کوالٹی کی کپاس میں تمیز، ان کی قیمتوں کا تعین، درجہ بندی اورمعیار وپیمانے کو دوبارہ سے عملی نفاذ کے لئے وفاقی وصوبائی سطح پر جدوجہد کا آغاز کیا جس پر انہیں ہر طرف سے خوش آمدید کہا گیا۔ PCBA نے قلیل وقت میں کاٹن ویلیو چین سے جڑے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر اکٹھا کیا۔ وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکورٹی ظفر حسن، کاٹن کمشنر ڈاکٹر زاہد محمود، نائب صدر پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی اعجاز احمد باجوہ، ڈاکٹر تصور حسین ملک، چیئرمین APTMA ڈاکٹر آصف انعام، چیئرمین PCGA چوہدری وحید آرائیں، سینئر ممبر PCGA سہیل محمود ہرل، سابق چیئرمین PCGA ڈاکٹر جیسومل، چیئرمین KCA عاطف داد ودیگر اسٹیک ہولڈرز کا بھرپور ساتھ ملا اور میجر(ر) محمد کاشف اسلام کے جذبے کو کافی سراہا گیا اور سبھی نے PCBA کو اپنی غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ PCBA کی مخلصانہ کاوشوں کی بدولت پاکستان کاٹن اسٹینڈرڈ انسٹیٹیوٹ (PCSI) نے کاٹن گریڈنگ اور سٹینڈرڈرائزیشن کے کورس کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ یہ کورس 26جولائی سے شروع ہو کر 8 اگست کو ختم ہوگا۔ کورس کے پہلے مرحلہ میں محکمہ زراعت توسیع پنجاب و سندھ، PCGA اور PCBA کے کل 40 کاٹن سیلیکٹرز کو تربیتی پروگرام کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ میجر (ر)محمد کاشف اسلام (چیئرمین PCBA) کا کہنا ہے کہ ابھی تو یہ آغاز ہے، لوگوں کو ابھی ٹھیک سے اس کی افادیت کا پتا نہیں ہے لیکن جب گریڈنگ اور اسٹینڈرڈائزیشن کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگا تو اس کی ضرورت و اہمیت کا احساس ہوتا چلا جائے گا۔ چیئرمین PCBA کی حالیہ اسلام آباد میں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی میٹنگ میں طے شدہ پروگرام کے مطابق اسلام آباد میں سٹیک ہولڈرز کی مجوزہ میٹنگ اور جننگ فیکٹریز میں گریڈنگ کے نفاذ کے سلسلے میں ایک پروقار تقریب کے انعقاد کا ارادہ رکھتی ہے جس کا جلد ہی مقام اور تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ جس گریڈنگ سسٹم کی آج بات ہو رہی ہے وہ ایک پائلٹ گریڈنگ سسٹم ہو گا جو پرانے گریڈنگ سسٹم کے تناظر میں لانچ کیا جائے گا،ساتھ ہی اس سسٹم میں نئے تقاضوں اور انٹرنیشنل سٹینڈرڈز کے مطابق نئے گریڈنگ سسٹم اور کاٹن سٹینڈرڈائزیشن پر کام بھی شروع ہو جائے گا جس کے لئے 3 سے 5 سال درکار ہوں گے اور ICA کے طرز پر قواعدو ضوابط تشکیل دئے جائیں گے۔ کپاس کی درجہ بندی کا نفاذ ملک میں یقینی طور پر گیم چینجر ثابت ہوگا، جس کی وجہ سے محنتی اور ایماندار جنرز کو انکی محنت اور ایمانداری کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ کسانوں کو بہتر معاوضہ مل سکے گا۔ یہ اہم قدم ملک کی معاشی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ اسی طرح کاٹن کنٹرول ایکٹ کے نفاذ کے لئے بھی عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے جس سے نہ صرف کئی قباحتوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ ملکی وبین الاقوامی سطح پر پاکستان کے وقار اور اس کی عظمت میں بھی گرانقدر اضافہ ہو گا،کاٹن کنٹرول ایکٹ کا نفاذ کاٹن گریڈنگ اور سٹینڈرڈائزیشن کے ساتھ بہت ضروری ہے تاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو کاٹن انٹرنیشنل سٹینڈرڈز کے مطابق ملنی چاہییے خاص طور پر وزن،کاٹن بیلز کا وزن 170 کلو گرام سے کم نہ ہو جس سے ایک تو موئسچر moisture کی بے ایمانی سے جان چھوٹے گی دوسرا fuel economy بہت زیادہ ہو گی کیونکہ آج کل لوئر سندھ سے کاٹن بیلز کا وزن 145 سے 150 کلو گرام کی ہوتا ہے جس کی وجہ سے خریدار کو ہرپانچ ٹریلرز کے بعد ایک ٹریلر اضافی پڑ جاتا ہے ۔مزید براں کپاس کی ویلیو چین سے جڑے کپاس کے سب سے بڑے قومی تحقیقی ادارے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی PCCC کی کارکردگی وافادیت میں اضافہ کے لئے بھی عملی جدوجہد کی جائے گی جسے خاص ایک پلاننگ کے ذریعے مفلوج کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کاٹن بروکرز ایسو سی ایشن کی جانب سے کی جانے والی تمام تر کوششوں سے نہ صرف کاٹن ویلیو چین سے وابستہ تمام اسٹیک ہولڈرز کا بزنس بڑھے گا بلکہ اس سے ملک میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے اور غربت میںبھی کمی آئے گی۔کاٹن گریڈنگ اور سٹینڈرڈرائزیشن سسٹم کے عملی نفاذ سے پاک فوج کے زیر نگرانی ملک میں جاری سربز زرعی انقلاب پراجیکٹ کو بھی ایک بڑی سپورٹ ملے گی جس سے نہ صرف کسان خوشحال ہوگا بلکہ ملکی معاشی استحکام سے زندگی کے تمام شعبہ جات میں بہتری اور اصلاحات کا عمل تکمیل کو پہنچے گا۔
Leave a Comment