
جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ کی بنجرزمینوں پر اگنے والا پودا کرینہہ جوہماری دیہی ثقافت کابہت اہم حصہ تھا. اب غیرآباد زمینوں کو کاشف میں لانے کے ساتھ ساتھ. ہمارے جنگلوں صحرائوں اور ویران پڑی زمینوں کے منظر سے غائب ہوتا جا رہاہے۔ سرخ رنگ کے بیرنما ٹینڈوں کے پھل والا یہ جھاڑی دارپوداہمارے پنجاب میں کرینہہ ہندوستان کے پنجاب اور ہریانہ صوبوں میں کریل اور کیر بھی کہلاتا ہے۔ ہمارے جنوبی پنجاب کے علاقوں ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژن کے غیرآباد پڑے رقبوں میں آپ کو اکثر اس پودے کی جھاڑیاں نظر آئیںگی جن پر آپ کو سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول یا پھر سبز اور سرخ رنگ کے دیسی بیر کے سائز کے ٹھنڈے لگے ہوئے نظر میں گے۔
پچسپ بات یہ ھے کہ اس پودے کے پتے نہیں ہوتے بلکہ شاخوں سے تیز نو کلے کانٹے نکلتے ہیں. جو اس کا پھل توڑنے یا جینے والوں کے ہاتھوں میں چھ جاتے ہیں. گویا یہ کانٹے اس پورے کے پھل کی حفاظت کیلئے چوکیدار کا کرداربھی ادا کرکے چار. آج سے کم و بیش تیس چالیس سال پہلے تک یہ پودہ اور اس کا پھل ہماری ثقافت اور خصوصا کچن ثقافت کا اہم ترین حصہ ہوتا تھا ۔ اس پودے کا نچھل جسے ہم اپنی مقامی زبان میں مینڈ. ڈیلے یا ڈیل ہوں کہتے ہیں. کے نہ صرف ہمارے کچن بلکہ ہمارے حکیموں کے شفاظ نے طاقوں پر سجے شیشے کے جاروں میں بھی چمکتا دمکتا نظر آتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میری والدہ اکثر مجھے فرمائش کیا کرتی تھیںکہ جب میں اپنے کھیتوں سے واپس آؤں تو اس پودے پھل یعنی ٹینڈ ضرور ساتھ لے کر آؤں۔
دیسی ادویات
وہ ان ٹینڈوں سے بہت ندید سالن تیار کرتیں. چونکہ اس پورے کا یہ پھل جب سبز رنگت میں ہوتا تھا. تو اس میں کڑواہٹ بہت زیادہ ہوتی تھی. اور اس کڑاوٹ کی بدولت ہی یہ پھل پیٹ کے کیڑوں کو مارنے اور دیگر معدے کی دیگر بیماریوں کیلئے استعمال ہونے والی دیسی ادویات میں استعمال ہوتا تھا ۔ میری والدہ بڑی مہارت کے ساتھ ان ٹینڈوں کی کڑواہٹ دور کر کے انہیں ایک ذائقے دار سالن میں تبدیل کر لیتی تھیں جیسے کریلوں والے کو کالے سے پہلے کریلے کی کر کو ریٹ ڈور کوئی روایت کمیر کو لگنے والے ان ٹینڈوں کو سبز حالت میں ہی توڑ کرا نہیں سکھا لیا جاتا ہے اور خشک ٹینڈوں کو ان میں ہاون دستے میں .اچھی طرح کوٹ کر اس کا سفوف بنا لیا جاتا ہے
جس میں خشک کوڑتمبے اور کالا نمک ملا کر ان سےایک ایسی پھکی تیار کی جاتی ہے. جو پیٹ کی جملہ بیماریوں کا بہترین علاج ثابت ہوتی ہے. حکماان ٹینڈوں کواپنی بہت سی دیسی ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔ کیر کے یہ ٹینڈ پیکر مرغے ہو جائیں تو حیرت انگیز اور پر یہ نرم ہو جاتے ہیں. اور ان کی رنگت سرخ رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ سر حالت میں. انتہائی کڑوا لگنے والا یہ پھل پک کر انتہائی میٹھا ہو جاتا ہے. اور دیہات کے لوگ اسے ایک سوغات کے طور پر کھاتے ہیں. تاہم اب جیسے جیسے بنجرزمینیں آباد ہوتی جا رہا ہیں یہ پودہ ہماری ثقافت سے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔
پنجابی کلچر
اس پودے کے پھل کا ایک اور اہم استعمال اس کا اچار بنانا ہے۔ ہمارے ہریانوی اور پنجابی کلچر میں اس کے ٹینڈ اچار میں ڈالے جاتے تھے. جو آم کے اچار کا ذائقہ بھی دو چند کر دیتے تھے. اچار میں ان کے استعمال سے اچار زودہضم ہو جاتا تھا۔ آج کل ہماری جدید ثقافت میں پلنے والی نئی نسل اس پودے کی اہمیت اورافادیت سے نابلد ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمینیں قابل کا شدت بنانے کئے لوگ دیگر درختوں اور جنگی جھاڑیوں کے ساتھ کبر یا کریل کے اس پودے کو بھی تلف کر رہے ہیں. اور اب یہ پورہ بہت کم جگہوں پر دیکھے کو مل رہا ہے۔
میں نے اپنے کھیت میں اس پودے کی جھاڑی لگا کر اسے تراش خراش کے ذریعے جھاڑی سے ایک خوبصورت کنولی والے چھوٹے درخت کی شکل میں بدلنے کا ارادہ کیا ہے جبکہ میں اپنے کھیت میں ایک بوٹنی کیل چارٹ میں معدوم ہونے والے بہت سے انکا کر انہیں اپنی ثقافت میں زندہ رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہوں ۔
Leave a Comment