
کوہلو (بیٹھک رپورٹ) فلاحی تنظیم منصور فاؤنڈیشن کی جانب سے کوہلو کے. ایک سو سے زائد مستحق افراد میں راشن بیگز تقسیم کئے گئے. تنظیم کے ضلعی کوارڈینیٹر عبدالقیوم مری کے مطابق منصور فاؤنڈیشن کے. زیر اہتمام کوہلو کے ایک سو سے زائد یتیم،بیوہ اور مستحق افراد میں راشن بیگز تقسیم کئے گئے ہیں. راشن بیگز میں چینی،چاول،پتی۔ گھی اور دالیں شامل ہیں،منصور فاؤ نڈیشن کیجانب سےمہنگائی میں صوبے کے بیشتر اضلاع میں نادار اور مستحق خاندانوں میں راشن بیگز کی تقسیم کسی معجزے سے کم نہیں ہے. لوگ مہنگائی کے اس طوفان میں فاقوں پر مجبور ہیں۔
مگر انسانیت کا درد دل میں رکھنے والے کبھی بھی کسی موقع پر پیچھے نہیں ہٹے ہیں. منصور فاؤنڈیشن مہنگائی کے اس طوفان میں مشکل میں گھرے افراد کے مدد کے لئے کوشاں ہے. اس سلسلے میں مزید بھی مستحق افراد کی معاونت کی جائے گی۔ اس موقع پر مدارس اور مساجد میں قرآن مجید اور اسلامی کتابیں بھی پہنچائی گئی ہیں۔ کوہلو کے عوامی حلقوں نے منصور فاؤنڈیشن کے انسانی ہمدردی کے جذبے کو سراہتے ہوئے۔ دیگر مخیر حضرات سے بھی اپیل کی ہے کہ. وہ مشکل کے اس گھڑی میں مستحق خاندانوں کے مدد کو آگے آئیں تاکہ کوئی خاندان بھوکا نہ سوئے۔
دیسی ادویات
وہ ان ٹینڈوں سے بہت ندید سالن تیار کرتیں. چونکہ اس پورے کا یہ پھل جب سبز رنگت میں ہوتا تھا. تو اس میں کڑواہٹ بہت زیادہ ہوتی تھی. اور اس کڑاوٹ کی بدولت ہی یہ پھل پیٹ کے کیڑوں کو مارنے اور دیگر معدے کی دیگر بیماریوں کیلئے. استعمال ہونے والی دیسی ادویات میں استعمال ہوتا تھا ۔ میری والدہ بڑی مہارت کے ساتھ ان ٹینڈوں کی کڑواہٹ دور کر کے. انہیں ایک ذائقے دار سالن میں تبدیل کر لیتی تھیں جیسے کریلوں والے کو کالے سے پہلے کریلے کی کر کو ریٹ ڈور کوئی روایت کمیر کو لگنے والے ان ٹینڈوں کو سبز حالت میں ہی توڑ کرا نہیں سکھا لیا جاتا ہے اور خشک ٹینڈوں کو ان میں ہاون دستے میں .اچھی طرح کوٹ کر اس کا سفوف بنا لیا جاتا ہے
جس میں خشک کوڑتمبے اور کالا نمک ملا کر ان سےایک ایسی پھکی تیار کی جاتی ہے. جو پیٹ کی جملہ بیماریوں کا بہترین علاج ثابت ہوتی ہے. حکماان ٹینڈوں کواپنی بہت سی دیسی ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔ کیر کے یہ ٹینڈ پیکر مرغے ہو جائیں تو حیرت انگیز اور پر یہ نرم ہو جاتے ہیں. اور ان کی رنگت سرخ رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ سر حالت میں. انتہائی کڑوا لگنے والا یہ پھل پک کر انتہائی میٹھا ہو جاتا ہے. اور دیہات کے لوگ اسے ایک سوغات کے طور پر کھاتے ہیں. تاہم اب جیسے جیسے بنجرزمینیں آباد ہوتی جا رہا ہیں یہ پودہ ہماری ثقافت سے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔
Leave a Comment