سعودی صدر کی تعیناتی اور بینرز کا تنازع: طارق خان کا مؤقف سامنے آ گیا
اسلام آباد (سپیشل رپورٹر) صدر یونیورسٹی سٹاف ایسوسی ایشن و مزدور اتحاد گروپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی طارق محمود خان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے نئے سعودی صدر ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کے حق میں ان کے گروپ کی طرف سے لگائے گئے ویل کمنگ بینرز یونیورسٹی انتظامیہ نے نہیں بلکہ انہوں نے خود اتارے۔
روزنامہ بیٹھک سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے طارق خان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے انہیں پیغام موصول ہوا کہ ایک صدر (ڈاکٹر احمد شجاع سید) کی موجودگی میں کسی دوسرے صدر کے بینرز لگانا مناسب نہیں ہے لہذا جب تک ڈاکٹر احمد بن سعد الاحمد کی بطور صدر تعیناتی کا نوٹیفیکیشن نہیں جاری ہو جاتا یہ بینرز اتار لئے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ان کے بینرز کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا جس کے بعد انہوں نے خود وہ بینرز اتروا دئیے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ان کے گروپ نے کبھی بھی یونیورسٹی کے لئے سعودی صدر کی تعیناتی کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سعودی صدر کی تعیناتی ملک اور یونیورسٹی دونوں کے حق میں ہےان کا کہنا تھا کہ سعودی صدر سے کسی کو مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ صرف مڈل مینوں سے ہوتا ہے جو سعودی صدر کو چلاتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ سعودی صدر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے کوئی اپروچ نہیں کر سکتا وہ کسی دباو یا سفارش میں آ کر فیصلے نہیں کرتا بس شرط صرف ایک ہے کہ مڈل مین اچھے ہوں کیونکہ یہی مڈل مین سعودی سے قربت اور عربی زبان جاننے کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی صدر کی تعیناتی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے توسط سے یونیورسٹی کو مالی امداد مل جاتی ہےان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یونیورسٹی کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی سعودی صدر کی تعیناتی کی مخالف تھی کیونکہ ان کی جب بھی اے ایس اے کے صدر ڈاکٹر طارق سے بات ہوئی انہوں نے سعودیوں کی کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کے حق میں بات کی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اے ایس اے تو سعودی صدر کی تعیناتی کی مخالفت میں پیش پیش تھی تو ان کا کہنا تھا کہ ایک گروپ میں مختلف الرائے لوگ ہو سکتے ہیں-
لیکن انہوں نے کبھی بھی اے ایس اے کے صدر ڈاکٹر طارق کو سعودیوں کی مخالفت کرتے نہ تو سنا اور نہ ہی دیکھا لہذا یہ کہنا کہ اے ایس اے نے سعودی صدر کی تعیناتی کی مخالفت کی مناسب نہیں ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ اے ایس اے نے ڈاکٹر احمد کے حق میں خوش آمدید کے بینرز نہیں لگائے جس کی بڑی وجہ نوٹیفیکیشن کا جاری نہ ہونا ہو سکتی ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ اے ایس اے کی قیادت معاملات سے زیادہ آگاہی رکھتی ہے اس لئے وہ سمجھتے ہوں گے کہ بینرز لگانے کا مناسب وقت ابھی نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی ابھی بینرز لگانے کے حق میں نہیں تھے مگر جب ان کے مخالف پاسبان گروپ اور آفیسرز کی تنظیم نے بینرز چھپوائے تو ان کے گروپ کے لوگوں نے انہیں بھی بینرز چھپوانے اور لگانے کی تجویز دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا نئے سعودی صدر ڈاکٹر احمد سے دو بار بذریعہ خط رابطہ ہوا جن میں سے پہلے خط میں انہوں نے ڈاکٹر احمد کو صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی جس کے جواب میں ڈاکٹر احمد نے ان کا شکریہ ادا کیا جبکہ دوسرے خط میں انہوں نے ڈاکٹر احمد سے وفد کے ساتھ ملاقات کے لئے وقت مانگا جس پر ڈاکٹر احمد نے انہیں بتایا کہ وہ ابھی سعودی عرب میں موجود ہیں جب پاکستان پہنچیں گے تو ضرور ملاقات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ڈاکٹر احمد کے تعیناتی کے نوٹیفیکیشن کے جاری کرنے میں ہونے والی تاخیر میں ڈاکٹر مختار کا کوئی کردار ہو سکتا ہے کیونکہ ڈاکٹر مختار ایکٹنگ ریکٹر ہیں اور وہ نہیں چاہیں گے کہ وہ سعودی صدر کی ناراضگی مول لیں وگرنہ سعودی صدر انہیں ہٹانے میں دیر نہیں لگائیں گےان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی ملازمین کو جو دو بڑے مسائل درپیش ہیں ان میں سے پہلا اور بڑا مسئلہ ملازمین اور افسران کے رینک میں اپ گریڈیشن ہے ان کا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسی کے تحت ملک کے تمام اداروں اور یونیورسٹیوں میں یکم جنوری دو ہزار تیئس سے اپ گریڈیشن ہو چکی ہے جبکہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی واحد یونیورسٹی ہے جہاں اس پر عملدرآمد رکا ہوا ہے ان کہنا تھا کہ یہ 1500 سے 1800 کے لگ بھگ ملازمین اور افسران سے متعلقہ مسئلہ ہے کیونکہ بہت سارے لوگ عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ریٹائر ہو گئے ہیں جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی کا ایک عرصے سے منعقد پذیر نہ ہونا یونیورسٹی ملازمین اور افسران کو درپیش دوسرا بڑا مسئلہ ہےان کا کہنا تھا کہ ساڑھے چار سال ہو گئے ہیں افسران کے حوالے سے ڈی پی سی کی میٹنگ کا انعقاد نہ ہو سکا اسی طرح تین سال سے ملازمین کی محکمانہ ترقی رکی ہوئی ہے پاسبان گروپ کے ایک رہنما نے روزنامہ بیٹھک کو بتایا کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بینرز اتارنے سے روکا ہو۔ان کا کہنا تھا کہ طارق خان کی موجودگی میں بینرز اتارے گئے اور پوری یونین چپ کر کے تماشا دیکھتی رہ گئی۔ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ بھی یونین کی جانب سے ایڈمن بلاک کے سامنے ایک بہت بڑا بینر لگانے کی وجہ سے اس وقت پیدا ہوا جب ایکٹنگ ریکٹر ڈاکٹر مختار اپنے دفتر پہنچے تو انہوں نے وہ بینر دیکھ کر کہا کہ یہ راجہ بازار کس نے بنایا ہوا ہےان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مختار نے فوری طور پر وہ بینر اتارنے کی ہدایت کی جبکہ یونیورسٹی حدود میں لگائے گئے دیگر بینرز کو ہٹانے کی ہدایت بھی جاری کی گئی جس کے بعد ڈائریکٹر ایڈمن کا سٹاف متحرک ہو گی-
ا ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مختار اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بینرز ہٹانے کا عمل ان کی سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ نئے تعینات ہونے والے یونیورسٹی صدر کو خوش آمدید کہنے سے کسی کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ 25 مارچ کو صدر مملکت آصف علی زرداری کی سربراہی میں یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز نے ڈاکٹر احمد کو چار سال کے لئے یونیورسٹی نیا صدر تعینات کیا تھا مگر کم و بیس ایک ماہ گرزنے کے باوجود ان کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری نہ ہو سکا ہے روزنامہ بیٹھک نے اس سلسلے میں جب ڈاکٹر مختار، ڈائریکٹر ایڈمن ڈاکٹر عبدالرحمان اور یونیورسٹی ترجمان کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں