ارشد ملک کی گمشدگی: سینئر صحافی کا پراسرار اغوا اور تحقیقات کا رخ
ملتان (بیٹھک رپورٹ) دو روز گزرنے کے باوجود سینئر صحافی ارشد ملک بازیاب نہ ہو سکے، پولیس کی جانب سے مقدمے کے اندراج میں لیت و لعل سے کام، مقدمہ درج نہ ہوںے پر عدالت نے پولیس حکام کو نوٹس جاری کر دیا، ملک بھر میں صحافیوں کو احتجاج جاری، ارشد ملک کی فوری بازیابی کا مطالبہ، ایف آئی اے سائبر کرائم حکام کی جانب سے ارشد ملک کو گرفتار نہ کرنے پر اصرار، اگرچہ ارشد ملک کے اغوا کے حوالے سے دی گئی درخواست کو چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود ملتان پولیس کی جانب سے مقدمے کا اندراج نہ کیا گیا ۔
مگر پولیس ٹیمیں اس حوالے سے تحقیقات کے لئے روزنامہ اوصاف کے دفتر پہنچ گئیں ریذیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ اوصاف مہر عزیز نے بتایا کہ پولیس ٹیمیں جمعرات کی شام روزنامہ اوصاف پہنچیں اور ارشد ملک کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنے کے علاؤہ دفتر سے باہر قریبی بلڈنگ پر نصب کیمرے سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی۔انہوں نے بتایا کہ مقدمے کے اندراج کے لئے عدالت میں 22 اے کے تحت درخواست جمع کرائی گئی ۔
جس پر جمعرات کے روز متعلقہ جج نے ریجنل پولیس آفیسر، سٹی پولیس آفیسر اور دیگر متعلقہ پولیس حکام کو نوٹسسز جاری کر دئیے گئے ان کا کہنا تھا کہ ارشد ملک کو لاپتہ کرنے کے حوالے سے ایک اور پٹیشن بھی جلد دائر کر دی جائے گی ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم یونٹ ملتان کے حکام جنہوں نے ارشد ملک کو تین نوٹسسز جاری کئے تھے تاحال ارشد ملک گرفتاری سے لاعلمی ظاہر کر رہے ہیں دوسری جانب ارشد ملک گمشدگی کے خلاف صحافی برادری سراپا احتجاج بن گئی اور مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔
ملتان میں ملتان یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام سینئر صحافی و ایڈیٹر رپورٹنگ روزنامہ اوصاف ملتان ارشد ملک کی دو روز سے پر اسرار گمشدگی کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں مختلف صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں نے بھی شرکت کی احتجاجی مظاہرین نے نعرے بازی کی اور ارشد ملک کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا اس موقع پر مظاہرین کا کہنا تھا کہ سینئر صحافی ارشد ملک دو روز قبل دفتر سے نکلے اور اس کے بعد سے پر اسرار طور پر غائب ہیں، پولیس اور ایف آئی اے سمیت کوئی محکمہ ماننے کو تیار نہیں کہ وہ ان کے پاس ہیں۔
صحافیوں نے کہا کہ ارشد ملک ایک نجی ادارے کے خلاف خبروں کی اشاعت کر رہے تھے جس پر ان کو دھمکیاں بھی موصول ہو رہی تھیں مظاہرین نے وزیر اعظم ، وزیر اعلی پنجاب ، آئی جی پنجاب اور ڈی جی ایف آئی اے سمیت سی پی او، ڈپٹی کمشنر و دیگر اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ سینئر صحافی ارشد ملک کو فوری بازیاب کرایا جائے اور اس پر اسرار گمشدگی میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے مظاہرے میں ایم یو جے کے جنرل سیکریٹری مظہر خان، اختر شیخ، جاوید اقبال عنبر، خالد چوہدری، شریف جوئیہ، طارق انصاری، طارق چوہدری، انجم خان پتافی، آصف خان، اعظم ملک، بلال خان نیازی، عمیر علی خان، عون عباس، وسیم شہزاد، رانا بلال یونس، شاہد سٹھو، ندیم حیدر، خواجہ اشرف صدیقی، سدرہ فاروق، وسیم خان بابر، بابر چوہدری، محبوب ملک، جہانزیب بلوچ، محبوب چغتائی، یاسر بھٹی، امیر زمان بھٹی، دلزیب آکاش ،سہیل نیاز، زاہد عنبر ، عامر عاربی، چوہدری عبد الوسیم، عاصم شیرازی، آصف اسلم، ملک عمران، محمد عبداللہ و دیگر نے شرکت کی۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ سی پی او ملتان اور ڈپٹی کمشنر ملتان کو اس معاملے کا فوری نوٹس لے کر ارشد ملک کو بازیاب کرانا چاہئیے بصورت دیگر احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا، ایم یو جے کے زیر اہتمام جمعہ کے روز بھی احتجاجی مظاہرہ پریس کلب کے سامنے کیا جائے گا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (رانا عظیم گروپ) نے ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی ارشد ملک کی گمشدگی کی شدید مذمت کی ہے۔پی ایف یو جے کے سیکریٹری اطلاعات و کوارڈینیٹر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ارشد ملک، جو تعلیمی نظام پر تحقیقاتی رپورٹس کے لیے جانے جاتے ہیں، دو روز قبل لاپتہ ہو گئے، جس پر صحافتی حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
پی ایف یو جے کے صدر رانا محمد عظیم اور سیکریٹری جنرل شکیل احمد نے ارشد ملک کی گمشدگی پر گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اور مؤثر اقدامات کریں تاکہ ارشد ملک کی بحفاظت بازیابی یقینی بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی دورانِ ڈیوٹی گمشدگی اظہارِ رائے کی آزادی اور جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔رانا عظیم نے کہا کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ارشد ملک کو بازیاب کرانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور انہیں ان کے خاندان اور ساتھیوں کے پاس بحفاظت پہنچایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ارشد ملک جیسے صحافی، جو سچائی کو بے نقاب کرنے اور اداروں کو جواب دہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں، ریاست کی طرف سے مکمل تحفظ اور حمایت کے مستحق ہیں۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نہ صرف ارشد ملک کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے بلکہ ان کی گمشدگی کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات بھی کرائے۔ یونین نے حکام سے یہ بھی اپیل کی ہے کہ صحافیوں کے لیے ایک محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ خوف و خطر کے بغیر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
ارشد ملک کے قریبی عزیز خواجہ اسید نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر تحریر کیا کہ ہم کسی ادارے پر بلا جواز الزام نہیں لگانا چاہتے، ریاست کا ہر ادارہ ہمارےلیے محترم ہے مگر ہمارے گہرے اور سنجیدہ خدشات ہیں اور مختلف ذرائع سے معلومات بھی کہ میرے بھائی، سینئر صحافی ملک ارشد کی گمشدگی کے پیچھے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے بعض افسران کا ممکنہ اور مبینہ کردار موجود ہو سکتا ہے۔ بطور ادارہ نہیں، بلکہ کچھ افراد اس میں مبینہ طور پر ملوث ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ان خدشات کی بنیاد محض قیاس آرائی نہیں، بلکہ ان ٹھوس واقعات پر ہے جن میں ارشد ملک کے گھر پر ایف آئی اے کی جانب سے چھاپہ مارا گیا اور ان پر ایک بے بنیاد مقدمہ قائم کیا گیا۔ جسے بعد ازاں ختم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ تاہم اس تمام پس منظر کے باوجود ایف آئی اے کی جانب سے اس واقعے سے مسلسل لاتعلقی کا دعویٰ کیا جارہاہے۔ ہم بھی انکے اس دعوے کو جھٹلا نہیں رہے۔ مگر ادارے کے سابقہ عمل کے تناظر میں اپنے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب جب کہ ٹائمز انسٹیٹیوٹ کے مالک سرفراز مظفر اور ان کی اہلیہ وردہ نسم کو براہِ راست مرکزی ملزمان کے طور پر نامزد کر دیا گیا ہے، تو اس معاملے میں قانونی سستی اور ریاستی خاموشی ناقابلِ فہم اور ناقابلِ قبول ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسے افراد کے خلاف اب تک کوئی مؤثر، ٹھوس اور قابلِ ذکر قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ کیا سرفراز مظفر کی پشت پناہی واقعی اتنی طاقتور ہے کہ ریاست کے تمام ادارے بےبس نظر آتے ہیں؟ کسی شہری کی بازیابی ریاستی اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے؟انہوں نے مزید کہا کہ ارشد ملک نہ تو کوئی دہشت گرد ہے اور نہ ہی اُس نے ریاست کے خلاف بغاوت کی ہے۔ الحمدللہ، آج تک اس کے کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کی کوئی شہادت یا ثبوت سامنے نہیں آیا۔ وہ ایک ذمہ دار، پُرامن اور قانون کا پابند شہری ہے، جو اپنے پیشہ ورانہ فرائض دیانتداری اور جرأت کے ساتھ انجام دیتا رہا ہے۔ اس کا جرم اتنا ہے کہ اُس نے ایک نجی تعلیمی ادارے میں جاری مبینہ فراڈ، جعل سازی اور بے ضابطگیوں کو بے نقاب کیا۔
اگر محض سچ بولنا اور عوامی مفاد میں غلط کاریوں کو آشکار کرنا جرم ہے، تو یہ صرف ارشد ملک کا نہیں، بلکہ پوری آزاد صحافت کا مقدمہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک نجی تعلیمی ادارہ ریاستی اداروں پر اس قدر اثرانداز ہو جائے کہ سچ بولنے والوں کو ہدف بنایا جائے، اور قانون خاموش تماشائی بن کر رہ جائے۔ کیا اب ریاستی اداروں کی ترجیحات میں کسی عام شہری کو تحفظ دینا نہیں ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہم بہت سنجیدگی کے ساتھ وزیراعظم پاکستان، وزیراعلی پنجاب اور وزیر داخلہ محسن نقوی سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ارشد ملک کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے اور نامزد ملزمان سرفراز مظفر اور ان کی اہلیہ کو فوری طور پر حراست میں لیا جائے، اور ایک غیرجانبدارانہ، شفاف اور مؤثر تحقیقات کو یقینی بنایا جائے۔اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب ٹائمز انسٹیٹیوٹ کی انتظامیہ کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں