ملتان (بیٹھک سپیشل: ارشد بٹ) وہاڑی چوک پر جنرل بس سٹینڈ کے بالمقابل متعلقہ محکموں کی ملی بھگت سے بااثر افراد نے زیر زمین ہائی پریشر ٹرانسمیشن گیس پائپ لائن کے رائٹ آف وے کے قریب غیرقانونی ڈی کلاس سٹینڈ بنا کر ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو خظرے میں ڈال کر وہاڑی چوک کوبم میں تبدل کر کے رکھ دیا ہے۔بااثر ٹرانسپورٹر مافیا کئی سالوں سےبے دھڑک لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہےاور روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ ملک کے مختلف شہروں کے لئے چلائی گئی بس و ویگن ٹرانسپورٹ سروس سے سفر کرتے ہیں۔بااثر ٹرانسپورِٹرز نے وہاڑی چوک تک رسائی حاصل کرنے کے لئے گرلیں توڑ کر گرین بیلٹ پر راستے بنا لئے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر پی ایچ اے کے لینئن پارک کو بھی اجاڑ ڈالا۔ اس بااثر گروہ نے ٹرانسپورٹ کے علاوہ ہائی پریشر گیس پائپ لائن کے رائٹ آف وے کی پٹی اورگرین بیلٹ کے رقبے پر قبضہ کرکے غیرقانونی سٹینڈز، ڈرنک کارنر اور جنرل سٹور بھی بنا لئے ہیں۔بیٹھک کی جانب سے علاقے کے سروے کے دوران لوگوں نے بتایا کہ ٹرانسپورٹرز کے کارندے عنصر ڈوگر، اچھو ڈوگر اور شریف نے گیس پائپ لائن پر رہڑیاں لگوا کر فی رہڑی 5 ہزار روپے بھتہ کی وصولی بھی شروع کر رکھی ہے۔ گرین بیلٹ اور ہائی پریشر گیس پائپ لائن کے رائٹ آف وے کی پٹی پر غیرقانونی ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں مدینہ فلائنگ کوچ، راجپوت ٹریولز،علی اے سی بس سروس اورمیختر ٹرانسپورٹ نمایاں ہیں۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت کی ٹرانسپورٹ پالیسی اور رولز کے تحت جنرل بس سٹینڈ کی حدود سے 5 کلومیٹر دور ہی ڈی کلاس سٹینڈ قائم کیا جاسکتا ہے مگر سیاسی آشیر باد کی وجہ سے بااثر مافیا نے سرکاری جنرل بس سٹینڈ کے سامنے طویل عرصے سے غیرقانونی ڈی کلاس اڈابناکر کاروبار جاری رکھا ہوا ہے۔سیاسی طور پر بااثر ہونے کی وجہ سے ان ٹرانسپورٹرز کے ہائی پریشر گیس پائپ لائن کے رائٹ آف وے کی پٹی اور گرین بیلٹ پر کئے گئے قبضے کو آج تک ختم نہیں کرایا جا سکا بلکہ الٹا تمام متعلقہ محکمے بشمول سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل)، ڈسٹرکٹ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی، ٹریفک پولیس، ڈپٹی کمشنر آفس، سٹی پولیس آفیسر آفس اور پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی لوگوں کی زندگیوں کو 24 گھنٹے خطرے میں رکھنے والے اس کام میں بااثر ٹرانسپورٹرز کے سہولت کار کا کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ان ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو بااثر سیاسی خاندانوں کی پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کمپنیوں کے مالکان نے جنرل بس سٹینڈ کے عین سامنے بغیر کسی قانونی جواز کے ڈی کلاس سٹینڈز کی منظوری حاصل کررکھی ہے اور ہر ڈپٹی کمشنرسےکسی نہ کسی طرح ان سٹینڈز کے لائسنس کی تجدید کرا لی جاتی ہے۔جنرل بس سٹینڈ۔ فیز ون کے 1982 میں بنائے گئے نقشے (لے آؤٹ) کے مطابق نیشنل ہائی وے 5 (NH 5)پر جنرل بس سٹینڈ کے ساتھ 40 فٹ کی ایک سڑک جا رہی ہے درمیان میں ایک 22 فٹ پر مشتمل گرین ورج (green verge) ہے جبکہ دوسری جانب روڈ کی چوڑائی 45 فٹ ہے جس کے ساتھ فٹ پاتھ ہے۔ فٹ پاتھ کی دوسری جانب 70 فٹ چوڑائی کا ایک گراسی پلاٹ (green belt) انڈر پاس کے سامنے تک جا رہا ہے۔ گرین بیلٹ کے ساتھ ہی ہائی ٹرانسمیشن گیس پائپ لائن دکھائی دے رہی ہے۔دو دہائیوں سے زائد کے عرصے کے بعد تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن اتھارٹی کی جانب سے تیار کئے گئے ایک اور نقشے کے مطابق دونوں اطراف کی سڑک کی چوڑائی 36, 36 فٹ ہے درمیان میں گرین ورج کو 20 فٹ کر دیا گیا ہے اس نقشے میں فٹ پاتھ سے ملحقہ گرین بیلٹ میں ایک مسجد دکھائی گئی ہے جسے بعد ازاں یہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ گرین بیلٹ کے ساتھ ہی سوئی گیس کا رائٹ آف وے ہے۔ منرل اینڈ انڈسٹریل گیسز سیفٹی رولز 2010 کے رول نمبر 67 کے مطابق تمام ہائی پریشر پائپ لائنز کو پچاس فٹ کا حفاظتی فاصلہ فراہم کیا جائے گا جبکہ رول نمبر 68 کے مطابق کسی شخص کو حفاظتی فاصلے سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور ایسے کسی تجاوز کی صورت میں کمپنی چیف انسپکٹرکو اس بارے فوری طور پر اطلاع دینے کی پابند ہو گی۔ رول نمبر 69 کے مطابق چیف انسپکٹر رپورٹ کی گئی انکروچمنٹ کے معائنے کے بعد ہی ڈسٹرکٹ اٹھارٹی (ڈپٹی کمشنر) کو سیکشن 23 کے سب سیکشن 1 کی کلاز بی کے تحت انکروچمنٹ کرنے والے شخص کے خلاف کارروائی سفارش کرے گا ۔ان بااثر ٹرانسپوٹرز کے خیرخواہ صرف سیاست دان نہیں ہیں ان کے سہولت کاروں میں شہر کے بڑے بڑے انتظامی افسران بھی رہے ہیں اور متعلقہ محکموں کے چھوٹے بڑے افسران اور اہلکاران بھی۔ یہ تمام سرکاری محکمے اس بات سے لاتعلق رہے کہ ان غیر قانونی طور پر بنائے گئے اڈوں سے لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہے، یا ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، یا دہشتگردی کا خطرہ ہے یا یہ اڈے حکومت کی جانب سے اربوں روپے خرچ کر کے بنائے گئے جنرل بس سٹینڈ کو ناکام کئے ہوئے ہیں، یا گیس کی سپلائی کے مجموعی نظام کو خطرہ ہے یا پھر ان اڈوں کو مین روڈ سے منسلک کرنے کے لئے لوگوںکی جانیں رسک میں جا رہی ہیں یا گرین بیلٹ کو اجاڑا جا رہا ہے۔ بیٹھک ٹیم کی جانب سے کئے جانے والے سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کے زیر انتظام گرین بیلٹ کو ختم کرکے چھ مختلف پوائنٹس سے پختہ سڑکیں اور رستے خالصتا ًکمرشل مقاصد کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ان رستوں کو بنانے کے لئے سرکاری فنڈز فراہم کئے گئے اور سرکاری محکموں نے ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گرین بیلٹ پر سڑک یا راستے کی منظوری کیسے ہو گئی؟ کیا پی ایچ اے یا ایم ڈی اے حکام نے اس کے لئے این او سی جاری کیا یا نہیں؟ اگر جاری کیا تو کس بنیاد پر جاری کیا گیا اور اگر نہیں جاری کیا تو جب سڑک بن رہی تھی، گرین بیلٹ کو توڑا جا رہا تھا تو متعلقہ محکمے کیا کر رہے تھے؟۔ اسی طرح جس محکمے نے یہ سڑکیں اور راستے تعمیر کئے انہوں نے متعلقہ محکموں سے این او سی کیوں حاصل نہیں کیا۔ ستم بالائے ستم ہائی پریشر گیس پائپ لائن کے رائٹ آف وے کی پٹی پر غیر قانونی طور پر سڑکیں اور راستے بنا دیئے گئے۔ نہ بنانے والوں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ ایس این جی پی ایل سے کوئی این او سی حاصل کریں نہ ہی این این جی پی ایل نے سڑکیں اور راستے بنانے والے محکموں سے پوچھا کہ وہ کس کی اجازت سے ہائی پریشر گیس پائپ لائن کے رائٹ آف وے کی پٹی پر سڑکیں اور راستے بنا رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ایسا صرف تعلقات کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ سہولتکاروں کا کردار ادا کرنے والے تمام کرداروں نے مالی فائدے اٹھائے اور کچھ ابھی تک اٹھا رہے ہیں۔

انتظامیہ ،ٹرانسپورٹرزکاایکا،وہاڑی چوک پر”بارودی سرنگ“ نصب
مزید جانیں
مزید پڑھیں
ملتان ( خصوصی رپورٹر,بی زیڈ یو )بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کا اجلاس زیرصدارت پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی منعقد ہوا۔ اجلاسمیں سینڈیکیٹ ممبران جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم سابق وائس چانسلر علامہ اقبال مزید پڑھیں