ملتان (بیٹھک سپیشل) بااثر ٹرانسپورٹرز کی جانب سے ہائی پریشر ٹرانسمیشن گیس پائپ لائن کے رائٹ آف وے کی پٹی کے غیر قانونی خطرناک استعمال پر ایس این جی پی ایل کے حکام رسمی خط و کتابت تک محدود رہے اور کمپنی کے اس قدر حساس نیٹ ورک کو درپیش مستقل خطرے کسی بہت بڑے ممکنہ سانحےکاسبب بن سکتے ہیں۔ بیٹھک کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق منرل اینڈ انڈسٹریل گیسز سیفٹی رولز 2010 کے قاعدہ نمبر 69 کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف انجینئر ٹرانسمیشن ایس این جی پی ایل شعیب الرحمٰن نے 25 اپریل 2019 کو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ملتان کو ایک خط کے ذریعے لکھا کہ وہ اس سے قبل بھی اسی نوعیت کے دو خطوط اور پرائم منسٹرز پرفارمینس ڈیلیوری یونٹ (پی ایم ڈی یو) کے پورٹل پر کی جانے والی شکایت کے بارے انہیں لکھ چکے ہیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے اینٹی انکروچمنٹ کمپین کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے شعیب الرحمان نے لکھا کہ کمپنی کی پیمائشی پوسٹ ایم پی 214 اور ایم پی 216 کے درمیان پنجاب، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کو انتہائی دھماکہ خیز اور آتش گیر توانائی پہنچانے والی کمپنی کی 18, 24 اور 30 انچ کی ہائی پریشر ٹرانسمیشن گیس پائپ لائنوں کی رائٹ آف وے پٹی ہے جہاں بس، ٹرک اور ویگن سٹینڈز (غیر قانونی طور پر) بنائے گئے ہیں جو کہ کمپنی کی آپریشنل اور دیکھ بھال کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ۔انہوں نے مزید لکھا کہ (گیس سپلائی کے) نظام کی حفاظت اور سالمیت کے لئے ان انکروچمنٹس کا رائٹ آف وے کی پٹی سے فوری ہٹانا ملکی اور عوامی مفاد میں ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب تخریب کاری کی سرگرمیوں نے ملک کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔پی ایم ڈی یو پر ملک ناصر محمود نامی شخص کی شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے شعیب الرحمٰن نے لکھا کہ شکایت کنندہ نے بھی حکومت پنجاب کی جانب سے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، چیف ٹریفک آفیسر ملتان اور ایس این جی پی ایل کی جانب سے تجاوزات کے خاتمے کے لئے اٹھائے گئے تمام ممکنہ اقدامات کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایس این جی پی ایل نے بھاری ٹریفک کو روکنے اور رائٹ آف وے کی حد بندی کے لئے رائٹ آف وے پر اور اس کے ساتھ کنکریٹ بلاکس/ مائل پوسٹس تعمیر اور نصب کئے ہیں جبکہ رائٹ آف وے سے سولنگی/ٹف ٹائلز اور زیر مرمت گاڑیوں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر کو متعلقہ محکموں کو رائٹ آف وے پر چیف ٹریفک آفیسر ملتان کی جانب سے دی جانے والی تجاویز کی روشنی میں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن/میونسپل کارپوریشن، ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی اور ڈسٹرکٹ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے تعاون سے تجاوزات کے خاتمے کے لئے ٹھوس اور واضح اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ کمپنی پائپ لائن سے متعلق اپنی سرگرمیاں بغیر کسی رکاوٹ کے سرانجام دے سکے اور صارفین کو یکساں طور پر بلاتاخیر گیس فراہم کی جا سکے پانچ ماہ بعد اس وقت کے چیف انجینئر ٹرانسمیشن آصف علی رضا کی جانب سے 18 ستمبر 2019 کو اسی نوعیت کا ایک اور خط ڈپٹی کمشنر ملتان کو لکھا جاتا ہے جس میں پچھلے تمام خطوں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور وہی گذارشات دہرائی جاتی ہیں جو پچھلے خط میں کی جاتی ہیں۔ اس خط میں ڈپٹی کمشنر کو واضح طور پر بتایا جاتا ہے کہ رائٹ آف وے بشمول کراسنگ پوائنٹ پر کسی قسم کی تجاوزات اور بھاری ٹریفک/مشینری کی روانی کی اجازت نہ ہے۔انہوں نے لکھا کہ ہائی پریشر پائپ لائن پر کسی بھی غیر ضروری اور اضافی دباؤ سے بچنے کے لئے کراسنگ پوائنٹس پر کم از کم تین فٹ مٹی کی اضافی تہہ فراہم کی جائے۔بجائے اس کے کہ چیف انجینئر ٹرانسمیشن ڈپٹی کمشنر کو سختی سے منع کرتے کہ ہائی ٹرانسمیشن گیس پائپ لائن کا رائٹ آف وے کسی صورت استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو لکھا کہ وہ تمام متعلقہ محکموں کو ہدایت جاری کریں کہ وہ این او سی جاری کرتے وقت رائٹ آف وے کاخصوصی خیال رکھیں، بس، ٹرک اور کوچ سٹینڈز کے لئے ٹھوس اور واضح اقدامات اٹھائیں اور رائٹ آف وے کی پٹی کو کسی صورت سٹینڈ اور گاڑیوں کے پارک کرنے کے لئے کسی صورت استعمال میں نہ لانے دیں۔ اس لیٹر کے ذریعے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیف انجینئر ٹرانسمیشن نے رائٹ آف وے کو کراسنگ کے لئے استعمال کرنے کی غیر قانونی طور پر اجازت دیدی۔پی ایم ڈی یو پر ملک ناصر محمود کی درخواست کا نتیجہ تھا کہ چیف انجینئر ٹرانسمیشن کو لفظ بہ لفظ ایک اور خط ڈپٹی کمشنر کو 6 نومبر کو لکھنا پڑ گیا لیکن اس خط میں بھی رائٹ آف وے کی پٹی کو ہیوی ٹریفک/مشینری کے گزرنے سے نہیں روکا گیا۔18 دسمبر کو ایک مرتبہ پھر چیف انجینئر ٹرانسمیشن نے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھا مگر نہ ڈپٹی کمشنر رائٹ آف وے کا غیر قانونی خطرناک استعمال رکوا سکے اور نہ ہی ایس این جی پی ایل کی جانب سے ہیوی ٹریفک/مشینری کے گزرنے پر کوئی اعتراض اٹھایا گیا۔سال 2020 میں بھی ایس این جی پی ایل کی جانب سے رسمی خطوط لکھنے کا سلسلہ جاری رہا ۔سال کا پہلا خط 20 جنوری کو لکھا گیا اس خط میں شکایت کنندہ کا ذکر غائب کر دیا گیا۔ اس خط کی اہم بات یہ تھی کہ یہ خط ڈپٹی چیف انجینئر ٹرانسمیشن زاہد محمود نے چیف انجینئر کی جگہ پر لکھا۔ زاہد محمود کی جانب سے دوسرا خط 7 فروری کو لکھا گیا اس خط کےمندرجات پچھلے خطوں کی نسبت قدرے مختلف تھے۔ اس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ رائٹ آف وے پر گاڑیوں کی پارکنگ ایس این جی پی ایل کے نیٹ ورک کے لئے مستقل خطرہ ہے کسی بہت بڑے سانحے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ اس خط میں منرل اینڈ انڈسٹریل گیسز سیفٹی رولز 2010 کا واضح طور پر حوالہ دیا گیا جبکہ ایک نئے شکایت کنندہ محمد مزمل کی شکایت کا تذکرہ بھی کیا گیا۔اتنی خط و کتابت کے باوجود ڈھاک کے وہی تین پات ہی رہے۔ یوں 12 فروری اور 18 جون کو دو مزید خط تحریر کئے گئے۔ وقت گزرتا رہا یا جیسے تیسے گزار دیا گیا اور یہاں تک کہ 2021 آ گیا۔ آصف رضا نے کم و بیش اسی متن کے ساتھ 26 مئی 2021 کو پہلا خط اور ہفتے بعد 3 جون کو دوسرا خط داغ دیا ۔

حساس معاملے پرسوئی گیس حکام کی غفلت، رسمی خط وکتابت کاکھیل کھیلتے رہے
مزید جانیں
مزید پڑھیں
ملتان ( خصوصی رپورٹر,بی زیڈ یو )بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کا اجلاس زیرصدارت پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی منعقد ہوا۔ اجلاسمیں سینڈیکیٹ ممبران جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم سابق وائس چانسلر علامہ اقبال مزید پڑھیں