
ڈیرہ غازی خان (معظم محمود عباس/ڈسٹرکٹ کرائم رپورٹر) حلقہ پی پی 290 سے پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ کے خواہشمند امیدوار ملک محمد رمضان کا کہنا ہے کہ اپنے علاقے کے لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگار، امن اور انصاف جیسی پانچ بنیادی سماجی سہولیات فراہم کرنے کیلئے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک محمد رمضان جوکہ ڈیرہ غازی خان کی جانی پہچانی شخصیت ہیں اور دس سال سے پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں اور پارٹی کے ضلعی نائب صدر ہیں۔ روزنامہ بیٹھک سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ملک رمضان کا کہنا تھا کہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور ریاستی جبر کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی وجہ سے علاقے کے کارکنان کے پرزور اصرار پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ملک رمضان نے بتایا کہ انہوں نے موضع کھاکھی غربی کے ایک غریب کسان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ زیادہ زمین نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والد نے بھینسیں پال رکھی تھیں جس کا دودھ بیچ کر گھر کے معاشی معاملات چلائے جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تعلیم اپنی بستی کھاکھی غربی سے حاصل کی اور مڈل کا امتحان پائیگاں سے پاس کرنے کے بعد 1976 میں کمپری ہنسو ہائی سکول ڈیرہ غازی خان سے پاس کیا۔ انہوںنے کہا کہ اس دور میں گاؤں کے نوجوان سعودی عرب جاکر پاکستان پیسے بھیج رہے تھے انہیں بھی پیسے کمانے کا شوق ہوا۔
حلقہ پی پی 290
اس وقت عمرہ پر بائیس سو روپے خرچ آتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد سے پیسے مانگے تو انہوں نے انکار کر دیا مگر بڑے بھائی نے اس شرط پر پیسے دیئے کہ وہ ان کو حج کرائیں گے جس کا وعدہ کرکے پیسے لے کر وہ سعودی عرب چلے گئے۔
سعودی عرب پہنچ کر پیش آنے والے حالات و واقعات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ جب وہ جدہ سے مکہ مکرمہ جا رہے تھے تو انہوں نے سوچا کہ جب اللّہ کے گھر پر پہلی نگاہ پڑے گی تو وہ کشادگی رزق کی دعا مانگیں گے مگر جب ان کی پہلی نگاہ پڑی تو دم بخود رہ گئے اور انہوں نے جو دعا کی وہ زندگی ایمان کے ساتھ اور موت شان کے ساتھ آنے کی دعا تھی۔ان کہنا تھا کہ عمرہ کرنے کے بعد روزگار کی تلاش شروع ہوئی ،ایک بار تو خیال آیا کہ سب کچھ چھوڑ کر گاؤں کی آزاد اور کھلی فضا میں واپس لوٹ آئیں مگر لوگوں کے طعنے اور اپنی بے عزتی کا خیال آیا ان کا کہنا تھا کہ اگر رقم بھائی کی بجائے باپ نے دی ہوتی تو لوٹ بھی آتا۔
پھر بستر اور کمبل فروخت کرنے والی دکان پر کام شروع کر دیا۔دن کو دکان پر کام کرتا رات کو دکان پر آنے والا مال اتارتا ۔تگڑی مزدوری بناتا رہا ۔رقم گھر بھیجتا اور والد سے زمین خریدنے کا کہتا ۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد زمین خریدتے رہے۔ ان کی محنت، ایمانداری اور لگن سے متاثر ہو کر مالک دکان نے اپنی دکان بنانے میں تعاون کیا۔
الیکشن
یوں انہوں نے دل لگا کر کام کیا اور چھ سال پاکستان واپس نہ آئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اب ان کی مالی حالت خاصی مستحکم ہو چکی تھی ان کے پاس نقد رقم کے علاؤہ اچھی خاصی زمین بھی تھی جس پر انہوں نے پاکستان واپس آکر زمیندارہ اور کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس عرصے میں انہوں نے حسب وعدہ اپنے بھائی اور والدین کو حج بھی کرایا ۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے ٹریکٹرز کی خرید وفروخت اور فارمنگ شروع کردی۔ سیاست میں آنے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 2000 کے بلدیاتی الیکشن میں لغاری گروپ میں شامل ہو کر سیاست کا آغاز کیا ۔تاہم 2005 کے الیکشن میں اویس احمد خان لغاری سے اختلافات پیدا ہو گئے۔
جس پرسابق صدر فاروق احمد خان لغاری مرحوم اور موجودہ لغاری سردار جمال احمد خان لغاری نے انہیں منانے کی کوشش کی مگر انہوں نے معذرت کر لی اور کھوسہ گروپ میں شامل ہو گئے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت لغاری اور کھوسہ گروپ کے سوا تیسرا کوئی آپشن نہیں تھا ۔الیکشن 2013 سے کچھ پہلے عمران خان کی جدو جہد سے متاثر ہو کر بنی گالہ جا کر عمران خان سے ملاقات کی اور پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے عمران خان کو ملک اور قوم دونوں کے لئے مخلص پایا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک تحریک انصاف میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ علاقے کے کچھ لوگ ایک مسجد کو شہیدکرکے راستے میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ وہ منظور شدہ راستہ نہ تھا اور نہ ہی مسجد ان کے مسلک کی تھی۔ مگر اللّہ کا گھر جان کر انہوں نے حق کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے ان پر فائرنگ کر کے قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا۔
الیکشن لڑنے کافیصلہ
الیکشن میں حصہ لینے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا۔ کہ حلقہ پی پی 290 کے لوگ تھانہ کچہری کے معاملات کی وجہ سے ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ رسہ گیر لوگ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرکے ڈکیتیاں اور چوریاں کراتے ہیں۔ پھر کبھی بھونگے اور کبھی بھتے کے ذریعے لوگوں کا مال بٹورتے رہتے ہیں۔ تھانہ ،پٹوار خانہ کی چٹی دلالی ان کا ذریعہ معاش ہے۔ اسمیں انہیں بدعنوان ملازمین کا ساتھ حاصل ہے۔ اس کے خاتمے کے لئے بھر پور کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس سوال کے جواب میں کہ وہ منتخب ہو کر کیا عملی اقدامات کریں گے۔ تو انہوں نے جواب دیا تعلیم، صحت، روزگار، امن اور انصاف یہ پانچ بنیادی سماجی ضرویات ہیں جو وہ علاقے کے لوگوں کو فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
امن قائم کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لئے وہ ایسے افسران کو علاقے میں تعینات کرائیں گے۔ جو دیانت دار، فرائض منصبی اور اختیارات سے آگاہی رکھتے ہوں۔ روزگار کی فراہمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا۔ کہ حکومتی تعاون سے نوجوانوں کے لئے ہوم انڈسٹری کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ تاکہ وہ اپنی حالت بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں بھی بہتری لا سکیں۔ علاؤہ ازیں سرائیکی وسیب کی محرومیوں اور مشکلات کو فوکس کرکے اسمبلی کے فلور پر ایوان کو ہم خیال بنانا۔ ان کی ترجیح ہو گا تاکہ تاکہ سب پارلیمنٹیرینز مل بیٹھ کر خوش اسلوبی سے سرائیکی وسیب کو محرومیوں اور مشکلات سے نجات دلا سکیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ
ان کا کہنا تھا کہ حق سچ کی آواز بلند کرنا۔ یا حق سچ کے لئے لڑنا کبھی آسان نہیں رہا۔ اس میں کافی مشکلات ہیں۔ مگر وہ اپنے لیڈر عمران خان کے شانہ بشانہ حقیقی آزادی کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں۔ اورآئندہ بھی کریں گے۔ علاقائی مسائل کے حل پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نےبتایا۔ کہ تھانہ کچہری میں لوگوں کا وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوتے ہیں اور دشمنی مزید بڑھ جاتی ہے۔
وہ ترجیحی بنیادوں پر علاقے میں امن کمیٹیاں قائم کرکے۔ ان معاملات کو تھانہ کچہری لے جانے سے پہلے نمٹائیں گے۔ تاکہ وقت اور پیسے کی بچت کے ساتھ ساتھ بلاوجہ دشمنیوں کا خاتمہ ہو۔ عمران خان کی حمایتکی سب سے بڑی وجہ اسی مافیا کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔ اپنی ذاتی پسندو ناپسند اور لائف سٹائل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا۔ کہ اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے، سادہ زندگی گزارنا پسند ہے۔
لباس میں سفید رنگ پسند ہے ۔خوشبو لگانا سنت نبوی ہے جومجھے بھی بہت پسند ہے۔ کھانے میں جو وقت پر مل جائے وہ سب سے بہتر ہے۔ جھوٹ سے نفرت ہے ۔دھوکہ اور فریب ابلیسی فطرت ہے۔ انسان کواس سے گریز کرنا چاہیے۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری بہت پسند ہے اور میرے لئے مشعل راہ بھی ہے۔ فرصت کے وقت علامہ محمد اقبال کی شاعری پڑھتا ہوں اور کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ روزنامہ بیٹھک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔ کہ روزنامہ بیٹھک نے الیکشن بڑی سرعت کے ساتھ صف اول کے اخبارات میں اپنی جگہ بنائی۔ اور سرائیکی وسیب کے سلگتے ہوئے مسائل اجاگر کرنے۔ اور ارباب اختیار تک مظلوم کی آواز پہنچانے میں پیش پیش ہے۔
Leave a Comment