شاہ عبداللطیف بھٹائی کی داستان مومل رانومیں روحانی مطالب پنہاں ہیں - Baithak News

شاہ عبداللطیف بھٹائی کی داستان مومل رانومیں روحانی مطالب پنہاں ہیں

مترجم پریتم داس بالاچ
‘داستانِ محبت مومل رانو ‘کا مکمل قصہ اور اسکا روحانی مطلب آ خر تک ضرور پڑھیں  کیونکہ اکثر بزرگ کہتے ہیں کہ شاعروں کے سرتاج شاہ عبداللطیف بھٹائی سرکار رحمتہ اللہ علیہ کے اس پیار، محبت، ہجر، سوز، وچھوڑے کےقصے میں درد بھری داستان کو جو بھی اسے عشق مزاجی و عشق حقیقی سمجھ کر بغور مطالعہ کرتےہوئےاس مومل مہیندرو راگ کو بھی سنتاہے تو اس پہ لطیف سرکار کی کرم نوازی اور اس اعلیٰ ذات کےرحم و کرم و برکتوں کےنزول سے گھر شاد آباد رہتا ہے اور ناچاقی، جھگڑا فساد، توتتکار کا خاتمہ ہو کر قلبی سکون محسوس کرتا ہے۔15ویں صدی کے وسط میں گجر ذات کا ایک راجہ نند گوجر تاریخی شہر میرپور ماتھیلو ‘مومل جی ماڑی سندھ پہ راج کرتا تھا۔اس کی نو بیٹیاں تھیں جن میں مومل خوبصورتی و عقلمندی میں تیز طرار اور سومل طلسمات و جادوئی کھیل میں کمال مہارت رکھتی تھی۔ ایک دن جب راجہ نند دریائے سندھ کے کنارے شکار کھیل رہا تھا تو اس نے عجب نظارہ دیکھا کہ ایک سور جیسے ہی پانی میں گھرا (داخل ہوا) تو پانی خشک ہو کر اسے رستہ دے رہا تھا۔ راجہ حیران ہو گیا اور سور کو مار کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہر حصے کو پانی میں بہانے لگا آ خر میں جب سور کا دانت بچا تو وہ ڈوبنے کی بجائے پانی کو خشک کرتا ہوا راستہ بنانے لگا تو راجہ نے سوچا اس کا سارا راز تو اس دانت میں پنہاں ہے۔راجہ نند دانت کے سہارے سے اپنا قیمتی خزانہ دریا کے بیٹ (جزیرہ) میں چھپا کر بے خوفی سے راج کرنے لگا۔قضا سے ایک جادو گر کو اس خزانے کا علم ہو گیا تو اس نے جوگی کا بھیس بدل کر راجہ کی غیر موجودگی میں محل کی چوکھٹ پہ آ کر صدا لگائی تو مومل نے محل کے جھرو کے سے دیکھا کہ ایک جوگی فقیر درد بھری آ واز میں پکار رہا ہے۔ جب مومل نے جا کر پوچھا تو اس جوگی نے کراہتے ہوئے کہا بیٹی! میں ایسی منحوس و موذی مرض میں مبتلا ہو کر یہ درد سہہ رہا ہوں میرے ان تمام دکھوں کی شفا صرف سور کے دانت سے ہو سکتی ہے کیونکہ جب میں اس کا کشتہ بنا کر کھاؤں گا تو مجھے آ رام مل جائے گا ۔اگر تو مجھے تیرے بابا کا رکھا ہوا وہ دانت خیرات میں دو گی تو اس نگری پہ کبھی زوال نہیں آئے گا اور تیرا مستقبل بھی سنور جائے گا جہاں جاؤ گی خوشیوں میں جھومتی ہوئی سکھ پاؤ گی۔ مومل جوگی کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئی اور دانت کو ڈھونڈھ کر جوگی کو خیرات میں دیدیا کیونکہ مومل اس کراماتی دانت سے بے خبر تھی ۔جوگی نے اس دانت کی مدد سے تمام خزانہ ڈھونڈھ کر کوسوں دور کسی دوسری نگری میں جا کر بسیرا کیا۔کئی دنوں بعد جب راجہ کو خیال آیا کہ خزانے کی خبر لی جائے تو وہ دانت کافی ڈھونڈھنے کے باوجود بھی نہ ملا تو آ خر معلوم ہوا کہ وہ دانت تو مومل نے ایک جوگی فقیر کو خیرات میں دے دیا تھا ۔یہ سن کر راجہ آگ بگولہ ہوگیا آؤ دیکھا نہ تاؤ انگارے برستی آنکھوں سے بیٹی کو دشمن سمجھ کر تلوار سے مارنے ہی والا تھا کہ بیچ میں سومل آ گئی۔سومل نے کہا پتا جی! کیوں بیٹی کی ہتیا (قتل) کا پاپ لیکر جگ ہنسائی کرواتے ہو اگر آ پ کو دولت کا اتنا ہی غم ہے تو اس سے چگنی دولت اپنے جادوئی کھیل سے لا کر دوں گی۔ یوں راجہ نند کا پارا کچھ کم ہوا تو ساتوں بہنیں اپنا لاؤ لشکر لیکر روانہ ہو گئیں۔ بعض روایات کے مطابق مومل (اور اس کی بہنوں) نے پنجاب (سرائیکی وسیب) کے تاریخی شہر جس کے پرانے نام پھل وڈہ، لاکھا پھولانی اور نوشہرہ ہیں اور رحیم یار خان سے 10 کلومیٹر دور پتن منارہ روڈ پہ ریت کے ٹیلے پہ موجود ہے۔مومل نے دریائے ہاکڑہ کے کنارے بسائے گئے قدیمی شہر پتن منارہ کے تجارتی پر رونق شہر میں آ کر بسیرا کیا تو ساہوکاروں، تاجروں، بحری بیڑوں کے مسافروں، بنجاروں، سوداگروں اور شہنشاہوں کو اپنی عقلمندی اور جادوئی کھیل کے پانسوں کی چال سے متاثر کرکے کافی دھن دولت اکٹھی کر کے اپنے والد کو بھیجی مگر وہ اس کی خواہش کے مطابق کم نکلی تو انہوں نے اس شہر کو چھوڑ کر دوسرے تجارتی شہر لیدرواہ (لڈانو) روانہ ہو گئیں۔ آ ج بھی اس تاریخی مقام پتن منارہ کو اس خطے کے قدیمی باشندے روہی چولستان کے مارواڑی لوگ اسے سیکھڑی و مومل کی ماڑی کہہ کر پکارتے ہیں۔ بس دوستو قصہ مختصر کہ مومل پتن منارہ سے تقریباً 100 کلو میٹر دور جنوب کی طرف انڈیا کے صوبے راجستھان کے ضلع جیسلمیر سے مغرب کی طرف تاریخی تجارتی اور ہندوؤں کے مذہبی تیرتھ آستھان لیدرواہ کے پاس کاک ندی کے کنارے ایک خوبصورت طلسمی محل بناکر رہنے لگی۔
اس مینار کو سیکھڑی ، کہیں یا مومل کی ماڑی یا شو مندر سے پکاریں یا سکندر اعظم کے بنے مینار کو بدھ مت یا ہندو مت کا یادگار مینار کہیں مگر ہے یہ ہمارا تاریخی ورثہ جسے ہم کھورہے ہیں ۔ کہتے ہیں یہ حمیر سومرو کی شہنشاہی میں سات منازل پہ مشتمل تھا جسکی آخری منزل پر بہت بڑا آ گ کا الاؤ کیا جاتا اور اسکے علاوہ ہر منزل کے چاروں طرف شاندار جھروکوں کو دیوں سے روشن کیا جاتا تھا تاکہ دور سے بحری و بری مسافروں کو اس شہر پتن منارہ کا علم ہو جائے اور وہ اپنی منزل پہ پہنچ کر شہر کا داخلی ٹیکس ادا کرتے ہوئے رواں دواں ہوں۔ بعض روایات کے مطابق لیدرواہ اور جیسلمیر کے قلعے کی روشنی اور اس مینار کی چمکتی روشنی ایک دوسرے کو متوجہ کرتی ہوئی دور سے دکھائی دیتی تھی ۔ اس محبت بھری روشنی کی کشش سے لوگ آپس میں تجارتی کاروبار سے مستفید ہو کر انسان دوستی بڑھاتے ہوئے میل جول رکھتے تھے ۔ یہ مینار حالیہ برساتوں میں بری طرح متاثر ہوا اس قومی ورثہ کو بچایا جائے۔ اسے آثار قدیمہ اپنی تحویل میں لیکر فنڈز جاری کرے ورنہ یہ مینار زبوں حالی کا شکار ہو کر زمین بوس ہو جائے گا ۔ جس سے ہماری صدیوں پرانی
روایات ، ورثہ ختم ہو کر تاریخ مٹی میں مل جائے گی ۔ آئیں مل کر اپنی تاریخی ورثہ کو مٹی میں ملنے سے بچائیں ۔

مزید جانیں

مزید پڑھیں
بی زیڈ یو

بی زیڈ یو کے مالی معاملات،حکومتی نمائندوں سے کرانے پر اتفاق

ملتان ( خصوصی رپورٹر,بی زیڈ یو )بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان کی سینڈیکیٹ کا اجلاس زیرصدارت پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی منعقد ہوا۔ اجلاسمیں سینڈیکیٹ ممبران جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم سابق وائس چانسلر علامہ اقبال مزید پڑھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں