شاہ محمودنے زیادتی کی،ہرصورت الیکشن لڑوں گا:راناعبدالجبار

  • Home
  • اداریہ/کالمز
  • شاہ محمودنے زیادتی کی،ہرصورت الیکشن لڑوں گا:راناعبدالجبار

ملتان (انٹرویو: یاسر بھٹی، فوٹو: خرم اخلاق) رہنما تحریک انصاف اور سابق چیئرمین ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی رانا عبدالجبار کا کہنا ہے کہ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی مشاورت سے انہوں نے صوبائی حلقہ پی پی 217 سے کاغذات جمع کرائے لیکن شاہ محمود قریشی نے پارٹی ٹکٹ اپنے بیٹے زین قریشی کو دلوا دیا جو کہ سراسر زیادتی اور ان کی حق تلفی ہے۔ شاہ محمود قریشی اقربا پروری کی سیاست کر رہے ہیں بیٹے، بیٹی اور بھانجے کو ٹکٹیں دیکر شاہ محمود قریشی نے موروثی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ اینٹی کرپشن کا نوٹس کمشنر ملتان عامر خٹک کی شرارت ہے۔ ہر صورت الیکشن لڑوں گا اور جیت کر یہ سیٹ عمران خان کو گفٹ کروں گا۔ روزنامہ بیٹھک سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رانا عبدالجبار کا کہنا تھا کہ 2011 میں پی ٹی آئی میں انہوں نے اس وقت شمولیت اختیار کی جب بطور سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی مقبولیت نہیں تھی۔انہوں نے بتایا کہ ان کے قریبی سیاسی ساتھیوں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا لیکن وہ کسی کے مشورے کو خاطر میں نہ لائے اور شاہ محمود قریشی کے کہنے پر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ان کا کہنا تھا کہ 2010 میں ان کے شاہ محمود قریشی کے ساتھ سیاسی تعلقات کی ابتداء ہوئی جب شاہ محمود وزیرخارجہ تھے اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ 2011 میں جب شاہ محمود قریشی نے گھوٹکی میں جا کر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تو وہ بھی شاہ محمود قریشی کے ساتھ گھوٹکی گئے اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔انہوں نے بتایا کہ ان کے علاوہ گھوٹکی جا کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں سابق ممبر صوبائی اسمبلی ملک عباس راں، ڈاکٹر اختر ملک اور جاوید وڑائچ بھی شامل تھے۔انہوں نے بتایا کہ جب وہ گھوٹکی سے پی ٹی آئی میں شامل ہو کر واپس آئے تو ان کے کچھ دوستوں اور جاننے والوں نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا کہ آپ نے ایک تانگہ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے لیکن انہوں نے اپنے حلقے جو اس وقت پی پی 196 کہلاتا تھا اور قومی حلقے این اے 150 کا حصہ تھا میں اپنی مدد آپ کے تحت فلاحی کام شروع کر دئیے اور اپنی محنت سے پی ٹی آئی کے نام کو پروان چڑھایا ۔راناعبدالجبار کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی این اے 148 (موجودہ این اے 156) سے الیکشن لڑا کرتے تھے جبکہ اس حلقے (این اے 157) سے شیخ طاہر رشید مرحوم پی ٹی آئی کے ممکنہ امیدوار تھے لیکن شیخ طاہر نے اچانک پارٹی چھوڑ دی تو ہم سب نے شاہ محمود قریشی کو حلقہ این اے 150 (موجودہ این اے 157) سے (2013 میں) الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا جنہوں نے پہلے انکار کیا مگر بعد میں مان گئے۔ واضح رہے کہ شیخ طاہر رشیدنے 2011 میں مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور صرف چھ ماہ بعد فروری 2012 میں اس وقت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی جب جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے اور شیخ طاہر رشید کومسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا سنہری موقع فراہم کیا۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے شاہ محمود قریشی کے نیچے ایم پی اے کے کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار جمع کروائے تو شاہ محمود قریشی الیکشن ہار گئے مگر وہ الیکشن جیت گئے تاہم تین دن بعد ریٹرننگ آفیسر نے انہیں ناکامیاب قرار دیدیا جبکہ اس بیچ ان کے حامی جیت کا جشن مناتے رہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ آر او کے اس فیصلے کے خلاف انہوں نے الیکشن ٹربیونل میں درخواست دائر کر دی کیونکہ ان کو ان کے گھر کے پولنگ سٹیشن میں چھ پولنگ سٹیشنز سے ناکام قرار دے دیا گیا تھا یہاں تک کہ ان کے گھر کے پولنگ سٹیشن سے ان کا ایک ووٹ بھی ظاہر نہ کیا گیا حالانکہ ان کے پاس موجود ریکارڈ کے مطابق ان سب پولنگ سٹیشنز سے جیت چکے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ٹربیونل نے ووٹوں کی گنتی میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو دیکھنے کی بجائے ان کی طرف سے اٹھائے جانے والے ضمنی اعتراض یعنی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب قرار دئیے جانے والے امیدوار سابق صوبائی وزیر چوہدری وحید ارائیں کی جانب سے دو شناختی کارڈ اور دو پاسپورٹ رکھنے کے معاملے کو زیر بحث لاتے ہوئے اڑھائی سال بعد انہیں نااہل قرار دیدیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر ملک میں پہلی بار کسی امیدوار کو تاحال نااہل قرار دیا گیا جس کے بعد تاحیات نااہلیوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔انہوں نے بتایا کہ چوہدری وحید ارائیں کی نااہلی کے بعد 2015 کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے انہیں ٹکٹ جاری کیا جبکہ دوسری جانب اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے انہیں ن لیگ میں شامل کرانے اور منسٹر بنانے کی آفر کی گئی مگر ان کے انکار کے بعد پہلے پہل ن لیگ نے سابق وزیر جیل خانہ جات چوہدری وحید ارائیں کے بھائی کو ٹکٹ دیا تاہم بعدازاں وہ ٹکٹ رانا محمود الحسن کو دے دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن رانا محمود الحسن ان سے جیت گئے مگر وہ مایوس نہ ہوئے اور حلقے میں اپنا کام جاری رکھا۔انہوں نے بتایا کہ 2018 کے الیکشن کے وقت انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو شاہ محمود قریشی نے انہیں اپنے حق میں یہ کہتے ہوئے دستبردار کروا لیا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب بننا ہے اور وزیر اعلیٰ بننے کی صورت میں وہ اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے دستبردار ہو جائیں گے اور ان کی جانب سے خالی کی جانے والی نشست پر وہ (رانا عبدالجبار) ان کے امیدوار ہوں گے۔رانا عبدالجبار کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کے کہنے پر انہوں نے قربانی دی اور اپنے کاغذات نامزدگی اٹھا لئے مگر شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی کی نشست ہار گئے۔ انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سلمان نعیم کی نااہلی کے بعد ضمنی انتخابات کے وقت انہوں نے شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی بابت یہ کہتے ہوئے بات کی کہ کاغذات جمع کرانے میں محض تین دن رہ گئے ہیں جس پر شاہ محمود نے انہیں کاغذات جمع کرانے کو کہا مگر کاغذات جمع کرانے کے بعد شاہ محمود قریشی نے مشترکہ دوستوں اور بعدازاں بذات خود زین قریشی کو الیکشن لڑنے کے لئے کہا اور ساتھ ہی کہا کہ پارٹی آپ کی اس قربانی کو یاد رکھے گی، آپ کو کبھی مایوس نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ پھر انہوں نے شاہ محمود قریشی کے کہنے پر نہ صرف اپنے کاغذات نامزدگی اٹھا لئے بلکہ زین قریشی کی جیت کے لیے بھرپور کمپین کی اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرایا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے زین قریشی کی جانب سے خالی کی جانے والی نیشنل اسمبلی کی نشست این اے 157 سے الیکشن لڑنے کی تجویز شاہ محمود قریشی کے سامنے رکھی اور کہا کہ اگر کوئی امیدوار میسر نہیں ہے تو وہ حاضر ہیں مگر شاہ محمود قریشی نے انہیں بتایا کہ اس حلقے سے ان کی بیٹی مہر بانو قریشی الیکشن لڑنے جا رہی ہے جس پر انہوں نے مہر بانو قریشی کی بھرپور کمپین چلائی مگر وہ ہار گئیں۔انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ پھر اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے قبل انہوں نے شاہ محمود قریشی سے بات کی تو انہیں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کو کہا گیا مگر اس بیچ شاہ محمود قریشی نے ایک مرتبہ پھر انہیں اعتماد میں لیا اور بتایا کہ وہ وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار ہیں لہٰذا انہیں الیکشن لڑنے دیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات کی روشنی میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر قربانی دینے کا عندیہ دیا مگر شاہ محمود قریشی نے انہیں اعتماد میں لئے بغیر دیگر دو امیدواروں کے ہمراہ جا کر زین قریشی کے حق میں کاغذات نامزدگی واپس لے لئےجو کہ سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے۔ان کا کہنا تھا نہ تو شاہ محمود قریشی نے کاغذات نامزدگی واپس لینے سے قبل ان سے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی تاحال ان سے کسی قسم کا رابطہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ شاہ محمود قریشی نے سلمان نعیم کو 2018 کے الیکشن میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کا امیدوار بنانے کا کوئی وعدہ کیا تھا مگر انہیں ضرور کہا گیا تھا کہ پارٹی ٹکٹ انہیں دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ وہ یہ تو نہیں کہیں گے کہ شاہ محمود قریشی نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا مگر یہ ضرور کہیں گے کہ شاہ محمود قریشی نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے اور پارٹی چیئرمین عمران خان کے پاس یہ معاملہ لے کر جائیں گے۔انہوں نے واضح کیا کہ شاہ محمود قریشی سمیت پارٹی کے کسی دیگر عہدیدار سے اس معاملے پر بات نہیں کریں گے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنے کچھ دوستوں بشمول سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر اختر ملک کو ان کی عمران خان کے ساتھ ملاقات ارینج کرنے کا کہا ہے مگر تاحال کسی جانب سے ملاقات کرانے کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف عمران خان سے اس معاملے پر بات کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یا عمران خان پارٹی کے زین قریشی کو ٹکٹ دینے کے فیصلے پر انہیں قائل کر لیں یا پھر وہ عمران خان کو خود کو پارٹی ٹکٹ دینے پر قائل کر لیں گے۔ان کا کہنا تھا وہ ہر صورت الیکشن لڑیں گے اور جیت کر یہ سیٹ عمران خان کو گفٹ کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 1998میں میونسپل کارپوریشن کا الیکشن لڑا جو وہ جیت گئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ان پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے نہ ہی انہوں نے زین قریشی کو سابق ڈائریکٹر جنرل ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی قیصر سلیم سے کوئی گاڑی لیکر گفٹ کرائی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مدنی چوک پر میٹرو روٹ پر فلائی اوور کی تعمیر میں کوئی بے ضابطگی نہیں برتی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے مطالبے پر سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے فلائی اوور کی تعمیر کے حوالے سے بات کی گئی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ ایم ڈی اے کو بھی تعمیر کے لئے کہا جا سکتا ہے جس پر عثمان بزدار نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا ایم ڈی اے فلائی اوور تعمیر کر سکتا ہے جس پر انہوں نے انہیں بتایا کہ وہ ڈائریکٹر جنرل ایم ڈی اے سے اس حوالےسے بات کر کے بتا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ایم ڈی اے سے اس حوالے سے بات کی تو ڈی جی نے بتایا کہ ایم ڈی اے اپنے وسائل سے فلائی اوور کی تعمیر کر سکتا ہے جس پر انہوں نے وزیر اعلیٰ کو ایم ڈی اے کی جانب سے فلائی اوور کی تعمیر کی حامی بھری۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شاہ محمود قریشی کا فلائی اوور کی تعمیر کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انہوں نے اس حوالے سے میٹنگ میں شرکت منصوبے کی منظوری کے بعد کی ۔ان کا کہنا تھاکہ فلائی اوور کی تعمیر کے حوالے سے اینٹی کرپشن کی جانب سے ان کو ملنے والے نوٹس کے پیچھے موجودہ کمشنر عامر خٹک کی شرارت ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایم ڈی اے کی جس گورننگ باڈی نے اس منصوبے کی منظوری دی تھی عامر خٹک بطور ڈپٹی کمشنر اس گورننگ باڈی کا حصہ تھے۔ان کا کہنا تھا کہ عامر خٹک کے علاوہ اس وقت کے کمشنر ملتان، تین ایم پی اے، متعدد محکموں کے سیکرٹری یا ان کے نمائندوں نے اس منصوبے کی منظوری دی تھی لیکن انہیں نوٹس جاری نہیں کئے گئے۔انہوں نے بتایا کہ ان کے میاں جمیل سے کوئی اختلافات نہیں ہیں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آفیسرز کالونی میں واقع پلاٹ ای ٹو جس کا قبضہ اس کی مالکہ کے پاس نہیں کا بیانہ دیکر پہلے رانا محمود الحسن نے خریدنے کی کوشش کی مگر وہ پیچھے ہٹ گئے ۔رانا اقبال سراج نے یہ پلاٹ خرید لیا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے رانا اقبال سراج کو پلاٹ خریدنے سے منع کیا اور انہیں بتایا کہ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود مالکہ پلاٹ کا قبضہ نہیں لے سکیں تو وہ کیسے لے لیں گے جس پر رانا اقبال سراج پیچھے ہٹ گئے لیکن میاں جمیل کے بھائی میاں شفیق نے یہ پلاٹ خریدنے کی کوشش کی جبکہ دوسری جانب اس وقت کے ڈی جی ایم ڈی اے آغا علی عباس قزلباش اپنے عزیزوں کے حق میں پلاٹ ای سیون کا فیصلہ کرانے میں لگا ہوا تھا مگر ماڈل ٹاؤن میں واقع واسا کے ایک پلاٹ کے آکشن پر میاں جمیل اور آغا علی عباس میں اختلافات پیدا ہو گئے۔

Leave a Comment
×

Hello!

Click one of our contacts below to chat on WhatsApp

× How can I help you?