ملتان( بیٹھک سپیشل :پریتم داس بالاچ ) آج سے ہزاروں سال پہلے زمانہ ست یگ کی بات ہے کہ دنیاکے قدیم شہر “ملتان “میں ر اجہ ہرناکشپ نامی راج کرتا تھا۔ اُس نے سرشٹی (دنیا) کے رچنے والے برہماجی کی کٹھور تپسیا(سخت ریاٖضت ) کرکے وردان مانگاکہ نہ میں دن کو مروں نہ رات کو ،نہ زمین پرمروں نہ آسمان پر ،نہ اندر مروں نہ باہر ، نہ مجھے انسان مارے نہ حیوان اور نہ ہی کسی ہتھیار سے مارا جاؤں۔جب برہماجی نے اِس کی خواہش کے مطابق وردان عطا کیا تو اُس میں ادھیک بہت طاقت سماگئی اور کوئی بھی جاندار چیز اسے نقصان نہ پہنچا سکتی تھی ۔جب اِسے علم ہوا کہ اب مجھے سوئم بھگوان بھی نہیں مارسکتا تو اُس نے گھمنڈ میں آکر خدائی دعویٰ کرلیا اور بہشت دوزخ بھی اپنے ہی بنالئے ۔لیکن اِس کے بیٹے بھگت پرہلادنے اِس جھوٹے خدائی دعوے کو مسترد کردیا اور ہرناکشپ کوحقیقی خداکی طرٖف متوجہ کرتے ہوئے کہاکہ اے پتا جی ! پرماتما صرف ایک ہے ،اُسی ایک نے انیک برہمانڈ (کائنات) بنائے،وہی سبھی کا خالق ومالک ہے ۔اُسے کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ خود پیدا کرنے والا ہے ۔میری بات مانیں تو ہٹ دھرمی کا مارگ چھوڑکر راہِ راست پر آجائیں۔ اِسی میں ہی آپ کی اور ہماری بھلائی ہے ۔
پرہلاد: راج پاٹ سُکھ بھوگ پتاجی کھِن بھنگور کہلاتے ہیں
جِیواکیلا آوے جاوے کوئی سنگ نہیں جاتے ہیں
ہر ی کا نام جپے جو نِس دِن سو ئی موکھش پاتے ہیں
مارن ہارا کون جگت میں جس کو رام رکھاتے ہیں
ہرنا کشپ : کٹھن تپسیا کرکے میں نے ور برہما سے پایا ہے
امر ہو کر راج کروں میں جب لگ سورج تارا ہے
میرا نام سنت سب کانپیں دیو دیتئے گن سارا ہے
کون جگت کے اندر مجھکو دُوجا مارن ہارا ہے
اسی طرح سوال وجواب میں باپ بیٹے کے درمیا ن تناؤ حد سے زیا دہ بڑھ گیا اور بھگت پرہلاد کواپنے رستے سے ہٹانے کیلئے کئی ترکیبیں اختیار کیں۔خونی ہاتھی ،خونخوارشیروں،زہریلے سانپو ں کے آگے ڈالاگیا،پہاڑسے گرایا گیا ۔گرم تیل کے کڑاہے میں پھینکا گیا لیکن بھگوان نے اپنے سچے بھگت کو ہر تکلیف سے دور رکھا۔جب ،،بھگت پرہلاد،،اِن سب چیزوں سے بچ گیا تو ہرنا کشپ کی بہن ہولیکا ،نے اِسے اگنی منتر کی ودھی کے ذریعے بھسم کرنے کی ٹھان لی ۔ اِس نے بھگت پرہلاد کو گود میں لیکر اگنی منتر کا اُچارن کیا تو خود راکھ کی ڈھیری بن گئی اورپرہلاد پر بھگوان نے کوئی آنچ نہ آنے دی ۔کیونکہ سبھی منتروں سے اعلیٰ منتر اُس پار برہم پرماتما پہ وشواس (اُس لامحدود ہستی پر یقین ) رکھنے کا سچا منتر ہے ۔اور جب ہولیکا مر گئی تو ہرنا کشپ کو بہت دُکھ ہوا اور پرہلاد کو ختم کرنے کیلئے ایک مٹی کے ستون کو خوب گرم کروا کر اُس
سے لپٹنے کو کہا تو پرہلاد رام رام رام ۔رام کا نعرہ بلند کرتا ہوا گرم ستون سے لپٹ گیا ۔جب رام نام کے منتر سے وہ آگ کی طرح دہکتا ہوا ستون بھی ٹھنڈا پڑ گیا تو ہرنا کشپ نے تلوار نکال کر کہااے مورکھ !ان سب چیزوں سے تو تُو بچ گیا لیکن میری تلوار کے گھاؤ سے نہیں بچ سکے گا۔اب پکار وہ تیرا رام کہاں ہے۔
?ہر نا کشپ: کہاں تیرا وہ رکھوالا جس کا تجھے سہاراہے
بار بار سمجھاؤں تجھ کو مانے نہیں گنوارا ہے
ایک کھڑگ سے کروں تمھارادھڑ سے سیس نیارا ہے
اب میں دیکھوں کون جگت میں تجھے بچاون ہارا ہے
تو پرہلاد نے کہا پتاجی ! وہ تو پار برہم پرماتما(لامحدودہستی)ہر چیز میں ویاپک ہے ۔بلکہ اِسی گرم ستون میں بھی موجود ہے ۔اس جگہ بھگوان نے اپنے بھگت کے قول کو پورا کرنے کیلئے اُسی دہکتے ستون میں پرگٹ(ظاہر )ہونا پڑا ۔بھگوان نے نرسنگھ رُوپ دھارلیاجوکہ دھڑ انسان کا اورمنہ شیر کا تھا یعنی انسان اورشیرکا مِلا جُلارُوپ تھا۔نرسنگھ روپ نے ہرناکشپ کو اُٹھا کر محل کی دہلیز پہ لیجا کر کہا !اے مُورکھ تیر ی موت کا سمئے آگیا ہے ۔اب دیکھ نہ دن ہے نہ رات کیونکہ شام کا وقت ہے۔نہ تو اندر ہے نہ باہر کیونکہ تیرے جسم کا آدھا حصہ اندر اور آدھا حصہ چوکھٹ کے باہر ہے ۔نہ تو زمین پر ہے نہ آسمان پر کیونکہ تو میری گود میں ہے ۔اور دیکھ نہ میں انسان ہوں نہ حیوان کیونکہ میراجسم انسان اور حیوان کا مِلاجُلا رُوپ ہے ۔اے ظالم دیکھ !میر ے پاس کوئی ہتھیار بھی نہیں ہے ۔اب بتابرہما کے وچن (قول )کے مطابق تیری منہ مانگی کوئی چیز بھی نہیں ہے ۔ اسی طرح بھگوان نرسنگھ روپ نے اپنے تیز ناخنوں سے ہرنا کشپ کا پیٹ چاک کرکے ظالم کا خاتمہ کردیا اور اپنے پیارے بھگت کو بچا کر ثابت کر دیا کہ پرماتما، خدا، صرف ایک ہے و ہی لافناہے ۔اور لافانی ہستی کا کبھی خاتمہ نہیں ہوتا ۔بھگوان نے ظالم کا خاتمہ کر کے ہر ایک کو آزادی دلائی ۔ مہا پاپی حکمران سے نجات حاصل کر نے کے بعدلوگوں نے ایک دوسرے پر رنگ وگلال چھڑک کر آزادی منائی اور اُس واحد و مطلق ذاتِ حق کا نام بے خوف وخطر ہوکر جپنے لگے۔ اس لئے ہم سب سناتن دھرم کے ہندولوگ خدائی دعویٰ کرنے والے ہرنا کشپ کے خاتمے ،مظلوموں کی آزادی ،وحدانیت پر یقین رکھنے والے بھگوان کے سچے بھگت پرہلاد کو خراجِ عقیدت پیش کر تے ہوئے ہر سال ہولی کا تہوار مناکر اُس کی یا د تازہ کرتے ہوئے نفرتوں ،کدورتوں کو ہولی کی آگ میں ڈال کر پریم کے گیت گاتے ہیں اور ملکی سلامتی کیلئے اجتماعی دُعا کرکے خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ۔آؤآج ہم سب مل کر عہدکریں کہ پرماتما ایک ہے ۔ ہم سب آدم کی اولاد ہیں ۔ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہو کر محبتیں بانٹیں یہی انسانیت ہے۔ ۔اور انسانیت ہی سب سے اعلیٰ دھرم ہے ۔
سبھی انسان ہیں اولاد آدم ہر انسان ہے بندہ خداکا۔
حقیقت میں ہیں سب بھائی بھائی کہ یہ مخلوق ہے کنبہ خداکا۔
آخر میں مجھے بے حد دکھ اورافسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ ہمارے تاریخی قلعہ کہنہ ملتان میں پرہلادمندر کو 1992 ع میں چند شرپسندوں نے اس کا گنبد توڑدیا 31 سال گزرنے کے باوجود اُس کو ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا ۔ہماری ارباب اختیارسے اپیل ہے کہ مذکورہ مندر کے علاوہ متروکہ وقف املاک ودیگر قابضین کی تحویل میں جتنے مند ر اور گردوارے ہیں انھیں واگزار کرا کے ہندوؤں و سکھوں کے حوالے کئے جائیں۔