ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی تعلیم پرحملہ آور،2سکول ملیامیٹ،8کی تباہی قریب - Baithak News

ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی تعلیم پرحملہ آور،2سکول ملیامیٹ،8کی تباہی قریب

ملتان (بیٹھک انویسٹی گیشن سیل)ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی تعلیم پرحملہ آور،2سکول ملیامیٹ،8کی تباہی قریب،ایک درجن کے لگ بھگ سرکاری سکولزکوہائوسنگ کالونی نے گھیرلیا،عملہ ،طلباپردبائو،قریبی آبادی دورمنتقل،متعلقہ محکمے بھیگی بلی بن گئے۔ وہ اپنے خاندان کی چوتھی نسل سے تعلق رکھتا ہے قیام پاکستان کو ستر سال گزرنے کے باوجود وہ آج بھی اپنے آباء اجداد کی طرح زندگی سسک کر بسر کر رہا ہے بنیادی سہولیات سے محروم ندیم حسین (فرضی نام) کی نظریں اچانک حکومت پنجاب کے ایک ایسے سکول کے بورڈ پر مرکوز ہوگئیں جس پر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے “آؤ سکول چلیں” کے نام سےمتعارف کرائے گئے سلوگن پر جم گئیں، اسی سلوگن کو دیکھ کر اپنے بچوں کے روشن مستقبل کی امید نے اس کے دل میں جنم لیا تھا لیکن اس کے سامنے اب یہ سلوگن اپنے آخری سانسوں تک پہنچ چکا ہے کیونکہ اس کی جنم بھومی ملک کی اشرافیہ کے لیے معیاری طرز زندگی کے نام پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے زبر دستی ہتھیا لی ہے۔ روز نامہ بیٹھک کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ڈی ایچ اے لاہور چیپٹر ملتان کا پھیلاؤ اٹھائیس ہزار ایکڑ پر مشتمل ہوگا بیس ہزار ایکڑ سے زائد کا ایریا خریدا جا چکا ہے اس خریداری میں اراضی مالکان کی مرضی کی بجائے زور زبردستی کا عمل دخل بہت زیادہ رہا ہے جس کی وجہ سے 75 سال بعد ایک مرتبہ پھر ڈی ایچ اے کے متاثرین کو ہجرت جیسی مصیبت برداشت کرنا پڑی لیکن اب ایک اور سنگین نوعیت کا مسئلہ کھڑا ہوچکا ہے ڈی ایچ اے کے آنے سے قبل تحصیل ملتان صدر کے اس ایریا میں ایک درجن کے لگ بھگ سکول بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے حکومت کی جانب سے بچوں کو تعلیم کی طرف لانے کے لیے ‘آئیے دیکھئے ہم فروغ تعلیم کے لیے کوشاں ہیں، نامی سلوگن پر کامیابی سے عمل کیا جا رہا تھا ۔ملتان تحصیل صدر کے اس علاقے کی آبادی کیونکہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی اکثریت پر مشتمل تھی اس لئے سرکاری سکول ہی غریب شہریوں کے لیے اے لیول اور او لیول کرانے والے پرائیویٹ سکولوں جیسی حیثیت رکھتے تھے ۔ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے گھر گھر انرولمنٹ کا منصوبہ شروع کیا ،اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے مانیٹرنگ سیل متحرک کیا، جدید تعلیم یافتہ میل، فی میل ٹیچرز بھرتے کئے گئے، کروڑوں روپے خرچ کرکے سکولوں کا انفراسٹرکچر کھڑا کیا گیا۔ سکولوں میں صحت اور پانی کے سہولتیں فراہم کیں گئیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے شہریوں کے بچوں کو مختلف پیکج دیئے گئے تاکہ اس علاقے کے رہائشیوں کے بچوں کو تعلیم کی روشنی سے آشکار کیا جا سکے ۔مگر شومئی قسمت کہ ڈی ایچ اے لاہور چیپٹر ملتان ان کے سر پر پہاڑ بن کر ٹوٹا۔ ڈی ایچ اے ملتان کی وجہ سے چار نسلوں سے سرمایہ دارانہ نظام اور جاگیرداری سسٹم کی چکی میں پسنے والے ان علاقوں کی آبادیوں کے بچوں سے زیور تعلیم جبری طور پر کھینچ لیا گیا ہے مارچ 2022 کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق اس وقت تک طلباء وطالبات کے دس سکول ڈی ایچ اے کے نوٹیفائیڈ ایریا کی زد میں آ چکے تھے۔ ان سکولوں میں سے ایک گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول بستی نو کا ایریا ایک کنال دس مرلے ہے، گورنمنٹ پرائمری سکول مدنیہ کا ایریا دو کنال، گورنمنٹ پرائمری سکول بخشش گڑھ آٹھ کنال، گورنمنٹ پرائمری سکول بستی نو ڈھنڈ آٹھ کنال، گورنمنٹ پرائمری سکول صدر پور ایک کنال، گورنمنٹ پرائمری سکول سمندری دو کنال، گورنمنٹ پرائمری سکول چک گاگرہ چار کنال، طاہر پور گورنمنٹ پرائمری سکول دو کنال، گورنمنٹ ہائی سکول پنج کھوہ سات کنال نو مرلے اور گورنمنٹ ایلیمنٹری سکول بستی گاگراں کا ٹوٹل رقبہ آٹھ کنال پر مشتمل ہے اس سرکاری رپورٹ کے مطابق ڈی ایچ اے نے ان سکولوں کو چہار اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ ان مواضعات کی آبادیوں کو دوسروں علاقوں میں منتقل ہونا پڑ گیا ہے جس کی وجہ سے ان سکولوں میںبچوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ، محکمہ سکول، ضلع کونسل اور دیگر متعلقہ محکمے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے سامنے بھیگی بلی ثابت ہوئے۔ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے خوف کی وجہ سےمحکمہ تعلیم ان سکولوں کے بند ہونے کی اصل وجوہات بیان کرنے سے قاصر ہے۔ وہ قاصر ہے کہ یہ بتا سکے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے ان مواضعات کی اراضی بزور خریدنے کے بعد یہاں کے دسیوں ہزار رہائشیوں کو نکال باہر کیا گیا اور جب کچھ آبادیوں کے رہائشیوں نے مزاحمت کی اور اپنی جنم بھومی چھوڑنے سے انکار کر دیا تو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے پہلے ان کے گھروں کے راستے بند کئے جس کے بعد ان کے بچوں کی درس گاہوں پر حملہ کر دیا۔ تمام سکولوں کو پانی کی فراہمی بند کر دی، سیوریج کا نظام اکھیڑ پھینکا گیا، چاروں اطراف سے سکولوں کے راستے بند کرنا شروع کر دیئے گئے، روشن مستقبل کی آس لئے بچوں اور بچیوں کو جگہ جگہ روک کر پوچھ گوچھ شروع کر دی گئی اس طرح آہستہ آہستہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے بچوں کے لیے تمام تعلیمی سلوگنز بشمول آو سکول چلیں، تعلیم سے اپنا نام پیدا کر، آگے بڑھنا ہے تو پڑھنا ہوگا او رپڑھو، کھیلو، آگے بڑھو جیسے سلوگنز ڈی ایچ اے کی تعمیراتی مشینری تلے روند دئیے گئے۔ بدقسمتی سے اس صورتحال کا نہ تو حکومت پنجاب نے نوٹس لیا اور نہ ہی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی نے اور نہ ہی کسی اور متعلقہ محکمے نے۔ ڈی ایچ اے ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف کارروائی نہ کی گئی یہاں تک کہ ملتان کی سول سوسائٹی نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی۔ ذرائع کے مطابق جب ان سکولوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا تو کچھ طلبہ وطالبات نے پرائیویٹ اسکولز کا رخ کر لیا جبکہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے بہت سے والدین نے اپنے بچوں کا سکول ختم کرا کر فیکٹریوں اور ورکشاپوں پر بٹھا دیا۔ لیکن اس تمام صورتحال کے باجود والدین کی ایک قلیل تعداد نے نہ تو اپنی زمینیں بیچیں اور نہ ہی اپنے بچوں کے تعلیم کے حق سے دستبردار ہوئے۔ اس موقع پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے آخری حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے گئے ایک حربے کے طور پر سکولوں کے خواتین و مرد اساتذہ کو تنگ کیا جانے لگا ۔ڈی ایچ اے کا سیکورٹی سٹاف صبح سویرے ان سکولز کے راستے پر کھڑے ہو کر سکولز سٹاف سے الٹے سیدھے سوالات کرنا شروع کر دیتا ہے جس کا بنیادی مقصد اس سٹاف کو اس حد تک زچ کرنا ہوتا ہے کہ وہ ان سکولز میں پڑھانا چھوڑ دیں یا اپنا تبادلہ کروا لیںایک اور حربہ یہ استعمال کیا گیا کہ آبادیوں کا گھیراؤ کر لیا گیا اور راستے بند کر دئیے گئے یوں لوگوں کو عدالتوں کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا گیا۔ ڈی ایچ اے انتظامیہ نے صرف اسی پر بس نہیں کی ۔”بیٹھک “کے پاس موجود سرکاری دستاویز کے مطابق ڈی ایچ اے نے خود ان سکولوں کا چارج سنبھالنے سے انکار کر دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈی ایچ اے نہ تو خود سرکاری اسکولز کو چلانا چاہتی اور نہ ڈسڑکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کو چلانے دے رہی ہے۔ یوں ڈی ایچ اے اپنے ایریا میں سرکاری اسکولز کا وجود ہی نہیں دیکھنا چاہتی۔ مقامی لوگوں کے مطابق 43 کنال پر مشتمل ان سکولوں کی عمارات اب آہستہ آہستہ کھنڈر میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ رستے بند ہونے کی وجہ سے بچے کچھے طلبہ وطالبات سکول آنے سے قاصر ہیں ۔اوپر سے ڈی ایچ اے کے سکیورٹی سٹاف کے رویوں نے جہاں بچوں سے زیور تعلیم چھین لیا ہے وہیں ان طلباء وطالبات کو مسلسل ایک شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کیا ہوا ہے ۔حکومت پنجاب جس نے ان بچوں کامستقبل محفوظ بنانا تھا ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے سامنے ہاتھ باندھے نظر آتی ہے جبکہ ڈی ایچ اے اب ایک کے بعد ایک سکول بند کرنے کے درپے ہے ۔ذرائع کے مطابق ڈسڑکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کی جانب سے ان سکولز کے مستقبل کے بارے میں ایک سال قبل ایجوکیشن سیکرٹری سے گائیڈ لائن مانگی گئی تھی لیکن سیکرٹری ایجوکیشن آج تک کوئی پالیسی نہیں دے سکے اور دم سادھے ہوئے ہیں۔

مزید جانیں

مزید پڑھیں
کارڈیالوجی

بہاولپور: 625اسامیاں خالی،کارڈیالوجی سنٹر آج بھی عملاً غیرفعال

بہاول پور(رانا مجاہد/ ڈسٹرکٹ بیورو)بہاول پور کارڈیک سنٹر گریڈ 01 تا 20 کی 625 آسامیوں پر تعیناتیاں تا حال نہ ہو سکی۔ بہاول پور کارڈیک سنٹر جس کو خوبصورت بلڈنگ اور جدید سہولیات کے حوالے سےسٹیٹ آف آرٹ کہا جاتا مزید پڑھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں