2024 کے انتخابات میں بہت سے لوگوں کے لیے غیر متوقع نتائج تھے۔ ان میں جماعت اسلامی کے رہنما سراج الحق اور استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما جہانگیر ترین بھی شامل ہیں جنہوں نے الیکشن ہارنے کے بعد اپنی پارٹی کی قیادت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ استعفیٰ دینے کے علاوہ جہانگیر ترین نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ سیاست میں اچھے ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیج پر مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کامیاب امیدواروں کو مبارکباد دی اور کہا کہ اس کے بعد وہ ایک عام شہری کی طرح زندگی گزاریں گے۔ جہانگیر ترین کا شمار پاکستان کے امیر ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو ہزاروں ایکڑ اراضی اور شوگر فیکٹریوں کے مالک ہیں۔ مسٹر ترین نے 2002 میں سیاسی میدان میں قدم رکھا اور مسلم لیگ (ق) پارٹی سے قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کی۔ 2004 میں وہ پرویز مشرف کے دور میں وزیر بنے۔ 2002 سے 2017 تک وہ تین بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ جہانگیر ترین نے 2011 میں تحریک انصاف پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست سمجھے جاتے تھے۔ لیکن تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد انہوں نے 2023 میں استحکام پاکستان کے نام سے پارٹی بنائی۔دوسری جانب پاکستان میں مذہبی جماعت جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی الیکشن ہارنے کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے ترجمان قیصر شریف نے پاکستان اسٹیٹ ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر جناب سراج الحق کے استعفیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہا کہ انہوں نے انتخابات میں شکست کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔ جناب قیصر نے مزید کہا کہ اس ماہ کی 17 تاریخ کو جماعت اسلامی کی مرکزی کونسل جناب سراج الحق کے استعفے کو قبول یا مسترد کرنے کے لیے ایک اجلاس منعقد کرے گی۔ سراج الحق نے کہا کہ کوشش کے باوجود الیکشن نہیں جیتے ۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی 2024 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں جیت سکی تھی۔ جناب سراج 2014 سے جماعت اسلامی کے رہنما ہیں۔ پاکستان کے آخری الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے۔ کچھ امیدوار ان پر انتخابات میں دھاندلی اور مداخلت کا الزام لگاتے ہیں۔ چند روز قبل انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کرنے والے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما محسن دُر فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے قبل خیبرپختونخوا کے شہر شانگلہ میں مظاہرین کو گولی مارنے کی خبر آئی تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 75، پیپلز پارٹی نے 54 اور دیگر امیدواروں نے 42 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔