ملتان ( بیٹھک سپیشل/رانا امجد علی امجد ) وفاقی نگران وزیر داخلہ اور وزیر برائے انڈسٹریز اینڈ کامرس ڈاکٹر گوہر اعجاز اور صوبائی وزیر برائے انرجی، انڈسٹریز، انوسٹمنٹ اینڈ سکلڈ ڈیویلپمنٹ ایس ایم تنویر کا بطور مالکان ٹیکسٹائل ملز کاٹن سیس کی مد میں کروڑوں روپے کے نادہندہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے،روزنامہ بیٹھک کے پاس موجود سرکاری دستاویز کے مطابق ملک کے 17 بڑے ٹیکسٹائل گروپس ایک ارب 53 کروڑ 13 لاکھ روپے سے زائد کے نادہندہ ہیں دستاویز کے مطابق صوبائی وزیر برائے انرجی، انڈسٹریز، انوسٹمنٹ اینڈ سکلڈ ڈیویلپمنٹ ایس ایم تنویر کا دین گروپ آف کمپنیز 6 کروڑ 23 لاکھ 8 ہزار روپے، وفاقی وزیر برائے انڈسٹریز اینڈ کامرس ڈاکٹر گوہر اعجاز کا اعجاز گروپ 5 کروڑ 98 لاکھ 80 ہزار روپے، نشاط چونیاں لمیٹڈ 18 کروڑ 38 لاکھ 183,832,000۔ نشاط ملز لمیٹڈ 103,879,230۔ نشاط لینن لمیٹڈ50,877,580، فضل کلاتھ گروپ 201,475,987۔ محمود ٹیکسٹائل ملز201,475,987۔ مسعود گروپ125,211,631۔ ریاض ٹیکسٹائل ملز پرائیویٹ لمیٹڈ89,155,414۔ گدون ٹیکسٹائل ملز (U-1&2)100,182,090۔ سیفائر گروپ،132,054,209۔ کالونی ٹیکسٹائل ملز94,021,134۔۔نگینہ کاٹن ملز143,069,711۔ ایکویٹی ٹیکسٹائل ملز59,409,241۔ سورج کاٹن ملز لمیٹڈ22,641,65۔ کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز34,923,226۔ کوہ نور ٹیکسٹائل ملز18,609,934 روپے کے کاٹن سیس فنڈز کے نادہندگان میں شامل ہیں ذرائع کے مطابق نگران صوبائی و وفاقی کابینہ میں موجود مافیاز کے اثرات سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی بھی نہ بچ سکی وزارتِ نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے ماتحت چلنے والے پاکستان کے سب سے بڑے تحقیقاتی ادارے پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کا اربوں روپوں کا کاٹن سیس ڈکارنے والے ایپٹما کے ٹیکسٹائل ملز مالکان 70 سال پرانے ادارے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا منصوبہ تیار کئے بیٹھے ہیں تاکہ ٹیکسٹائل ملز مالکان اور ایپٹما ہمیشہ کے لیے کاٹن سیس کی ادائیگی سے آزاد ہو جائیں گے انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے صوبائی وزیر ایس ایم تنویر جو کئی ٹیکسٹائل ملز کے مالک ہیں اور نگران وفاقی وزیر تجارت میاں گوہر اعجاز کی جانب سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے کروڑوں روپوں کے نادہندہ ہونے کے باوجود انہیں عبوری حکومتوں میں وزارتیں سونپ دی گئی ہیں اور وہ نادہندہ ہونے کے باوجود اپنی اپنی وزارتوں پر براجمان ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان دو وفاقی اور صوبائی وزراء کے علاؤہ بڑے ٹیکسٹائل گروپس جن میں نشاطِ گروپ آف کمپنیز، آرٹیزن گروپ آف کمپنیز، کوہ نور گروپ آف کمپنیز، سفائر و دیگر بڑے ایپٹما گروپس گزشتہ کئی سال سے پاکستان سٹرل کاٹن کمیٹی کے اربوں روپوں کے کاٹن سیس کے نادہندہ ہیں. انہوں نے بتایا کہ کاٹن سیس ایکٹ کے تحت ٹکسٹائل سیکٹر ہر ایک گانٹھ پر محض پچاس روپے کاٹن سیس دینے کا پابند ہے اور یہ قانون قیام پاکستان کے وقت سے لاگو ہے مگر ملک کے یہ بڑے صنعت کار گھرانے معمولی ٹیکس دینے کے روا دار بھی نہیں ہیںانہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کم و بیش سالانہ ڈیڑھ کروڑ کپاس کی گانٹھوں کی کھپت ہے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی اس ڈیڑھ کروڑ گانٹھ کا سیس وصول کرنے کا حق رکھتا ہے اس سیس سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی پورے ملک میں پھیلے ہوئے سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹس اور کاٹن ریسرچ اسٹیشنز کے انتظامی اور مالی معاملات چلانے ہوتے ہیں کاٹن سیس سے ہی ملک بھر میں پھیلے ہوئے کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹس اور کاٹن ریسرچ اسٹیشن پر زرعی سائنسدان کاٹن کے بیجوں پر تحقیقاتی سرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں تاکہ کپاس کے نئے اور بیماریوں کے خلاف بہترین قوت مدافعت والے بیج متعارف کرائے جا سکیں انہوں نے بتایا کہ ادارے کے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن کی ادائیگی بھی کاٹن سیس سے ہی ہوتی ہے بتایا جاتا ہے پاکستان کاٹن سیس کی وصولی نہ ہونے کی وجہ کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹس اور کاٹن اسٹیشن پر کپاس کی تحقیقاتی سرگرمیاں شدید متاثرہیں جبکہ اسوقت ملک میں اس ادارے میں سینکڑوں کی تعداد میں زرعی سائنسدانوں ودیگر ملازمین کی آسامیاں ایک دہائی سے زائد عرصہ سے خالی پڑی ہیں بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان آسامیوں پر بھرتی نہیں ہو سکی ہر آنے والے دن میں اس ادارے کی کارکردگی تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ معلوم ہوا ہے بڑے ٹیکسٹائل گروپس عرصہ دراز سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو ختم کرانے کے چکر میں تھے تاکہ کاٹن سسیس سے جان چھڑائی جا سکے اس کے لیے پہلے پہل انھوں نے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو کاٹن سیس کی ادائیگی روک دی بعد ازاں وزارتِ فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے اندر اپنے سابقہ سہولت کار اعلی آفسیران کے ذریعے پی سی سی سی کے مفادات کی بجائے اربوں روپے مالیت کا کاٹن سیس غبن کرنے والے مافیاز کے مفادات کا تحفظ کرنے لگ گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کاٹن سیس کی وصولی تو رک گئی لیکن دوسری طرف ادارے کا بٹھہ بیٹھنا شروع ہوگیا انہوں نے بتایا کہ یہ مافیاز اس وقت پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے ایک ہزار سے زائد حاضر سروس زرعی سائنسدان ودیگر ملازمین اور پینشنرز کے معاشی قتل اور ملازمتوں سے جبری رخصت کرنے کا خفیہ پلان بنا چکے ہیں انہوں نے بتایا کہ ادارے کے حالات کو دیکھتے ہوئے بہت سے ملازمین بہترین مستقبل کی تلاش میں پی سی سی سی کو چھوڑ رہے ہیں دوسری جانب کاٹن سیس کی وصولی نہ ہونے کی وجہ سے ادارے کا ریسرچ ورک بھی بری طرح متاثر ہےانہوں نے بتایا کہ بجائے اس کے کہ وازرت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ ملز مالکان سے کئی ارب کا کاٹن سیس وصولی کرتی کاٹن سیس کی شرح میں اضافہ کرواتی اور ادارے میں نئے زرعی سائنس دان لاتی تاکہ ادارے میں جدید طریقوں سے ہونے والی ریسرچ کو فروغ ملتا لیکن وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کاٹن سیس غبن کرنے والے کے خلاف کریک ڈاؤن کی بجائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مافیاز کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ معلوم ہوا اس ادارے کو ختم کرنے کے پیچھے اپٹما کافی سالوں سے سرگرم عمل ہے جس کے کرتا دھرتا نگران وفاقی وزیر تجارت میاں گوہر اعجاز اور ان کے ہمنواء صوبائی وزیر پنجاب ایس ایم تنویر ہیں جنہوں نے پی سی سی سی کو کروڑوں روپوں سے کا کاٹن سیس دینا ہے۔ یاد رہے گزشتہ 20 ماہ سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے ایک ہزار سے زائد ملازمین ٹیکسٹائل ملز مالکان کی جانب سے کاٹن سیس کی مکمل ادائیگی نہ ہونے اور اربوں روپوں کا ٹیکس ہڑپ کرنے کی وجہ سے 40-50 فیصد تنخواہوں اور پینشنز پر گزاراہ کرنے پر مجبور ہیں۔پی سی سی سی ملازمین، سول سوسائٹی ، پنجاب وکلاء محاذ ، آل پاکستان کسان اتحاد سمیت دیگر عوامی حلقوں نے حکومت سے اس معاملہ پر فوری طور پر نوٹس لینے اور موثر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔نگران وزیر داخلہ اعجاز گوہر نے موقف کے لیے روزنامہ بیٹھک کی طرف سے کئے گئے میسیج کا جواب نہیں دیا۔