ایک معروف بھارتی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ بھارت نے سیاست اور حکمرانی کا ایسا نظام اپنایا ہے جو نریندر مودی کو بچانے اور انہیں ایک محسن اور دیوتا کا درجہ دینے پر تلا ہوا ہے۔ ملک کے انتظام سے متعلق تمام معاملات ان کی ذات سے شروع ہوتے ہیں اور ان کی ذات پر ختم ہوتے ہیں۔نئی دہلی میں مقیم ایک سینئر سٹریٹجک اور پالیسی تجزیہ کار یامانی ایر کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں اور طریقہ کار نے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے جس میں ترقیاتی منصوبے بھی ریاست کی ذمہ داری کے طور پر چلانے کے بجائے عطیات کے طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ تمام معاملات نریندر مودی سے شروع ہوتے ہیں اور نریندر مودی پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ اس کی عبادت کی جا رہی ہے۔یامانی آئیر نے مشہور برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کے لیے لکھا ہے کہ مرکز نے ریاستوں (صوبوں) کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دینے میں کوئی تاخیر نہیں۔ سیکولر سوچ کی بات کرنے والوں کو ہندوؤں کا دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ ملک کے 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے لیے عام ہندوؤں کے ذہنوں میں نفرت کی آمیزش کی جارہی ہے۔یامانی ایر مزید لکھتے ہیں کہ مودی حکومت نے جمہوریت سمیت ان تمام نظریات کو ایک طرف رکھا ہے جن کی آئین میں ضمانت اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مرکز اور اس کی اکائیوں (ریاستوں) کے درمیان تعاون کی گنجائش کم ہے۔ بی جے پی نے تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں کو کھلے عام کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ریاستی ادارے بی جے پی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن سیاسی جماعتیں سیکولرازم اور جمہوریت کے لیے آواز نہیں اٹھا رہی ہیں اور عدلیہ بھی عام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کافی حد تک نیم دل اور سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ہندو انتہا پسندی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں جمہوریت اور سیکولرازم ایک کونے پر ہیں۔ اکثریت کی حکمرانی اکثریتی حکمرانی میں بدل رہی ہے۔ ملک کی سیکولر اور جمہوری شناخت کو مٹانے اور اسے خالص ہندو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کا عمل بہت تیزی سے جاری ہے۔