پاکستان کے لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے کہا ہے کہ ملک کی 126 اعلیٰ عدلیہ میں خواتین کی تعداد 7 ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور پانچ ہائی کورٹس پر مشتمل ہے۔ ‘عدلیہ میں خواتین’ کے عنوان سے یہ رپورٹ بنیادی طور پر پاکستان کی عدلیہ سے وابستہ ججوں، سرکاری وکیلوں، پبلک ایڈووکیٹ اور دیگر افراد کے لیے ہے۔ افرادی قوت میں خواتین کی تعداد اور کردار کا جائزہ لینا۔اس وقت ملک بھر میں ججز اور جوڈیشل افسران کی تعداد 3142 ہے۔ ان میں سے 572 خواتین ہیں۔ سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور ہائی کورٹس کے ججوں میں خواتین کی تعداد صرف 5.5 فیصد ہے۔2021 میں لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے ایک اجلاس میں پینل کے ارکان نے ملک کی عدلیہ میں صنفی بنیاد پر برابری کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ ملک کی عدلیہ بالخصوص اعلیٰ عدلیہ میں خواتین کی کم نمائندگی معاشرے میں خواتین کے ساتھ عمومی سلوک کی عکاسی کرتی ہے۔ اور یہ خواتین کے ساتھ بہتر سلوک کی ضرورت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ میں جنوبی ایشیا کے لیے قانونی مشیر ریما عمر کہتی ہیں کہ عدلیہ میں خواتین کی برائے نام نمائندگی بھی ملک میں جمہوریت کے لیے ایک بڑا بحران ہے۔ ایک مخصوص ذہنیت کی وجہ سے ہمارے ہاں سپریم جوڈیشری میں خواتین کی تعداد برائے نام ہے۔ سپریم کورٹ کے 12 ججوں میں سے صرف 2 خواتین ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں زیادہ سے زیادہ (3) خواتین ججز ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت، پشاور ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ میں خواتین ججز نہیں ہیں۔ضلعی سطح کی عدلیہ میں 3,016 فعال ملازمین میں سے صرف 565 خواتین ہیں جو کہ 20 فیصد سے بھی کم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز کے 2,30,879 ممبران میں سے صرف 40,000 خواتین ہیں۔