“لاہور میں تحریک انصاف کے بانی کو جیل میں مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے عدالت کو سیکیورٹی انتظامات سے آگاہ کیا۔”
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد نے تحریک انصاف لائرز فورم کے صدر افضل عظیم کی جانب سے بانی پی آئی ٹی کو جیل میں مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل اسد منظور بٹ نے کہا۔ ایڈووکیٹ جنرل اس پر اپ ڈیٹ دینے کے لیے کافی مہربان تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میں نے معلومات اکٹھی کر لی ہیں اور معلومات عدالت میں لے کر آیا ہوں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو ایک سیل میں رکھا گیا ہے، ان کے اردگرد 6 سیل بھی ان کے لیے الاٹ کیے گئے ہیں، ہم نے عمران خان کے لیے 7 سیلز الاٹ کیے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے مزید کہا کہ 10 لوگ اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ان کے لیے ایک سیکیورٹی افسر عمران خان ہے لیکن ہم نے عمران خان کے لیے 14 سیکیورٹی افسر تعینات کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کا کھانا مخصوص کچن سے جاتا ہے، اس کچن میں کسی اور کے لیے کچھ نہیں بنایا جاتا، عمران خان کی جیل میں سیکیورٹی کے ماہانہ اخراجات 12 لاکھ روپے ہیں۔ میں جنرل صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے درخواست اس شخص کی جانب سے دائر کی گئی ہو، حالانکہ اسے اس کی ضرورت نہیں تھی۔وکیل اسد منظور بٹ نے کہا کہ انہیں عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں، عدالت نے نوٹ کیا کہ ان کی اہلیہ نے اس حوالے سے درخواست دائر کر رکھی ہے۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ سے زیادہ وفادار ہونے کی ضرورت نہیں، یہ بہت اہم معاملہ ہے، ہم اس میں سب کو اجازت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم درخواست گزار افضل پہاڑ ہیں۔ وہ آپ کی عزت کرتے ہیں، وہ پورے پاکستان میں پی ٹی آئی کے دلدادہ ہیں، پتہ نہیں سب پارٹیوں میں کون ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے ہیں، کیمروں کی تنصیب پر 5 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ ادھر عدالت نے کیس کی مزید سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔یاد رہے کہ 28 مارچ کو لائرز فورم کے صدر افضل عظیم کی جانب سے بانی پی آئی ٹی کو جیل میں مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات کی سطح کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کی گئی۔اس سے قبل 7 مارچ کو راولپنڈی پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے مشترکہ آپریشن کر کے 3 مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے اڈیالہ جیل کو بڑی تباہی سے بچایا تھا۔ سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) راولپنڈی خالد ہمدانی نے بتایا کہ مشترکہ کارروائی میں اڈیالہ جیل کو بڑی تباہی سے بچا لیا گیا ہے، افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3 دہشت گردوں کو بھاری اسلحہ اور گولہ بارود سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔سی پی او راولپنڈی کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں سے اڈیالہ جیل کا نقشہ، دستی بم اور دیسی ساختہ بم برآمد ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف پر عمران خان سمیت تمام قیدیوں سے 2 ہفتوں کے لیے ملاقات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ڈان نیوز کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ انٹیلی جنس معلومات کی روشنی میں محکمہ داخلہ پنجاب نے اڈیالہ جیل میں پی ٹی آئی کے بانی سمیت تمام قیدیوں کی ملاقات پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب کو پابندی کا خط بھی جاری کر دیا ہے۔مراسلہ کے مطابق ملاقاتوں پر پابندی کا اطلاق پی ٹی آئی کے بانی عمران خان سمیت تمام قیدیوں پر ہوگا۔ بعد ازاں 16 مارچ کو سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اڈیالہ جیل کے اطراف سیکیورٹی سخت کردی گئی۔جیل کے باہر خاردار تاریں لگا دی گئی ہیں اور اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے، جیل سے ملحقہ اڈیالہ روڈ پر گیٹ لگا دیے گئے ہیں اور جیل کے مین گیٹ پر زائرین پر پابندی کے بینرز بھی آویزاں کر دیے گئے ہیں۔اڈیالہ جیل سے ملحقہ سڑک پر خاردار تاریں لگا دی گئی ہیں، جیل کے باہر غیر مجاز افراد اور گاڑیوں کو رکنے کی اجازت نہیں، میڈیا سیٹلائٹ گاڑیوں کو جیل کے 2 کلومیٹر کے اندر پارک کرنے کی اجازت ہے۔ جیل حکام کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں صرف متعلقہ افراد کو داخلے کی اجازت ہے۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری بھی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔