آخردُہائی کس کو دیں

ملیریا سے بچاؤ بارے آگاہی واک کا فوٹو سیشن کا صرف خبروں کی حد تک دیکھ کر کچھ لکھنے کا دل چاہا پھر سوچا کہ میں کیا لکھ سکتا ہوں میں تو ابھی شعبہ صحافت کا طالب علم ہوں خیر آج کل ملیریا کی روک تھام کی جدو جہد ہو رہی ہے یہاں ایک بات یاد آ گئی کہ ایک بار والدہ کو لےکر ایک ڈاکٹر کے پاس بہاول پور گیا چیک اَپ کے دوران ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ آج تک جتنے ڈاکٹروں کے پاس گئے ہو آپ کی والدہ کی صحیح تشخیص نہیں کی، نا ہی ان کی بیماری کا کوئی علاج ہوا میں نے تجسس میں پوچھا سر وہ کیسے تو انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ بھائی اگر آپ کو سر میں درد ہوا آپ نے کوئی گولی کھا لی یا کسی ڈاکٹر کے مشورہ سے کوئی دوائی استعمال کرلی درد تو ٹھیک شائد ہو جائے مگر یہ توپتہ ہی نہ چلا کہ درد آخر ہوا کیوں!
احمد پور شرقیہ جو کبھی ریاست بہاول پور کا دل ہوتا تھا آجکل گندگی کے ڈھیر اور سیوریج کے تعفن زدہ پانی کے جوہڑ میں ڈوبا ہوا ہے اور مچھروں کی آماجگاہ بن چکا ہے بدقسمتی سے جب بھی کوئی مقامی نمائندہ منتخب ہوتا ہے تو الیکشن میں جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں حکومت میں آنے کے بعد ان کووہ سب بھول جاتے ہیں وہی بات کہ رات گئی بات گئی عرصہ دراز سے سیوریج کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا جب بھی کوئی گلی محلے میں کام سڑک سولنگ یا ٹف ٹائل لگائی جاتی ہے تو اس وقت ان باتوں کو مد نظر نہیں رکھا جاتا کہ اس سے سیوریج کا نظام متاثر تو نہیں ہوگا المیہ یہ ہے کے سڑک، سولنگ یا ٹف ٹائل پہلے سے بہت زیادہ اونچی کر دی جاتی ہے جو شہر احمد پور شرقیہ کی عوام کے ساتھ سراسر ظلم ہے میں بات یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ملیریا،ڈینگی یا پولیو کی آگاہی اور احتیاطی تدابیر پر زور تو ہے مگر جن چیزوں سے یہ بیماریاں پھیلتی ہیں کیا ان کی روک تھام ہم پر لازم نہیں گندگی اور سیوریج کا نظام درست کریں چوک عباسیہ نہر 6L میں جب نہر میں پانی نہیں ہوتا تواس میں سیوریج کا گندہ پانی چھوڑدیا جاتا ہے نہر میں پانی نہ ہونے اور سیوریج کے گندے پانی کی وجہ سے مچھروں کی افزائش نسل ہو رہی ہے اور اس وقت مچھروں کا مسکن وہ نہر ہے شہر احمد پور شرقیہ کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہے آج سے کئی عرصہ پہلے چیئرمین حافظ خورشید احمد شیخ کے دور میں جو سیوریج لائن ڈالی گئی آج تک وہی چل رہی ہے جبکہ اس وقت کی آبادی اور آج کی آبادی میں زمین آسمان کا فرق ہے ہمارے مقامی عوامی نمائندگان ایم پی اے اور ایم این اے سیوریج پر توجہ نہیں دے رہے میونسپل کمیٹی میں عرصہ دراز سے نا اہلوں کا ٹولہ مسلط ہے بڑی سیٹوں پر تعینات افسران سیٹ پر موجود ہی نہیں ہوتے جبکہ ایک ملازم چار سے پانچ سیٹوں پر براجمان ہے مزے کی بات ہے کہ ہمارے دوسری دفعہ منتخب ہونے والے ایم پی اے اور ایم این اے ایک ہی جماعت سے ہیں ایک ہی جماعت میں ہوتے ہوئے آپس میں ان کی بنتی ہی نہیں جس کانقصان احمد پور شرقیہ کی عوام کو ہو رہا ہے ہاں بھائی۔۔۔۔ اختلاف کیوں نہ ہو ایم پی اے نواب ہے۔۔۔۔ تو ایم این اے سید بادشاہ عوام جائے بھاڑ میں ہر الیکشن میں ضلع کا لولی پاپ اور بھائی ایک بار قربانی دے دو اپنی سیٹ کی بھی قربانی دینی چاہیے شاہد احمدپور ضلع بن جائے گا ویسے تو پورے پاکستان میں یہ دستور ہے کہ پہلے نقصان ہو جانیں دیں پھر وہاں جاکر ان چیزوں کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا شہر کی مرکزی عید گاہ میں سفیدے کے درخت خود بخود ٹوٹ کر گرنے جانے سے ایک نو عمر بچے کی جان گئی مگر ابھی تک وہ سفیدے کے درخت ختم نہ کئیے گئے اور نہ نئے پودے لگائے گئے میونسپل کیمٹی میں میشنری نہ ہونے سے پورا شہر تالاب کا منظر پیش کر رہا ہے سیوریج کے گندے پانی سے کچھ محلے کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہے۔ مسلسل”گٹرستان“ سے پینے کا پانی بھی خراب ہو گیا ہے اب تو مثال بن گئی سڑکوں پہ سڑکیں سڑکوں پر پانی یہ ہے احمد پور شرقیہ کی نشانی لکھنے کو تو بہت کچھ ہے بہرحال میں توجہ دلانا چاہتا ہوں مقامی نمائندگان اور اسمبلی نمائندگان کی، وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ کی اور ان اداروں کی جو کروڑوں روپے مختلف بیماریوں اور وبائی امراض کے خاتمہ کی ویکسین پرخرچ کرتے ہیں وہ ان وجوہات کا بھی تدارک کریں جن سے یہ وبائیں جنم لیتی ہیں ہمارے سیاست دان اگر کچھ ماضی میں جا کر سوچیں یا دیکھیں تو احمد پور شرقیہ ریاست بہاول پور کا دل ہوا کرتا تھا اور یہاں صفائی کے لئے رولز رائس جو دنیا کی مہنگی ترین گاڑی سمنجی جاتی تھی کو ہے بھی کچرا اٹھانے میں استعمال ہوتی تھیں یہ ایک خوب مثال ہے کی۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے