آہ شیخ حاجی عبد الشکور ۔۔۔۔ وہ لب آزاد درویش و قلندر تھا

شیخ حاجی عبدالشکور کسی تعارف کے محتاج نہیں انکی محبتوں سے بھر پور سیاسی و سماجی، دینی و مذہبی خدمات پر مبنی زندگی ایک مثال ہے وہ نہایت وضع دار، دسترخوان کی وسعتوں سے سرشار انسان تھے اب وہ اس جہاں فانی سے رحلت کر گئے اللہ رب العزت انکی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے آمینواضح رہے کہ شیخ حاجی عبد الشکور کی یادیں انکی باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی وہ بے مثال اور بےنظیر شخصیت تھے انکا جہاں تمام طبقہ فکر میں احترام تھا وہ بھی سب کا دل سے احترام کرتے کا وہ اہل صحافت میں صحافی تھے سیاسی شخصیات میں سیاسی رہنما تھے سماجی حوالے سے انکا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں وہ بچوں میں بچوں والا کردار ادا کرتے جوانوں کے ساتھ جوان بن جاتے اور بزرگوں میں بزرگ ہوا کرتے دینی شخصیات میں درس و تبلیغ پر گفتگو کیا کرتے انہوں نے کئی سیاسی و سماجی تنظیمیں بناتیں ینگ اتحاد اور ریاست مدینہ ویلفیئر سوسائٹی جیسی فعال تنظیمیں قائم کرکے عوامی خدمت کو اپنا نصب العین بنایا وہ اہل نیاز اور اہل درد تھے پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ سب سے بڑی اور متحرک تنظیم PJA کے سوشل میڈیا فورم کے چیئرمین رہے PJA جنوبی پنجاب کے صدر شیخ رمضان ندیم سے خصوصی قربت و رفاقت تھی وہ پاکستان مسلم لیگ سے وابستہ رہنے کے بعد تحریک انصاف کے سابق دور میں منتخب نمائندوں سے دیرینہ محبتوں کا اظہار کیا کرتے آجکل انکی وابستگی کھوسہ گروپ سے تھی وہ سابق وزیر اعلی سردار دوست محمد خان کھوسہ کے بہترین ساتھیوں میں شمار ہوتے اور سردار دوست محمد خان کھوسہ بھی انکی بزرگی کے پیشِ نظر انکا دلی احترام کرتے تھے وہ نہایت ممتاز سیاسی رہنما تھےوہ لب آزاد درویش و قلندر تھا کاروبار میں ممتاز مقام رکھنے والا دوستوں کا دوست، وضع دار، خلوص و محبت سے لبریز، انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والی عہد بےمثال شخصیت شیخ حاجی عبدالشکور کو اگر خراج عقیدت پیش نہ کیا جائے تو انسانی نظریے کی توہین ہوگی انکے بچھڑ جانے کے بعد کائنات کا پورا منظر ہی بدل گیا ہو جیسے احساس رواداری اور ایک دوسرے کے کام آنے کی روایات ہی دم توڑ گئیں ہوں جیسے حاجی عبد الشکور درویش منش انسان تھے ان میں بھلائی کی ایک جستجو پنہاں تھی وہ دریا دل انسان تھا دوستوں کو جابجا کھانے دیا کرتا محافل کا اہتمام کرتا میلاد کی محفلیں کراتا لنگر و خیرات کے اہتمام کیا کرتا لوگوں کی بھلائی اس کا نصب العین تھا ان کی یادیں انکی باتیں انکے خیالات انکی فکر و افکار بچ گئےسیاسی و سماجی اور کاروباری طبقات کے ساتھ ساتھ دینی شخصیات میں بھی ایک مقام تھا انکا پورے کا پورا گھرانہ کاروباری ہے ان کی اولاد بھی کاروبار سے ہی منسلک ہے انکے لاتعداد چاہنے والے تھے لیکن جو خوبیاں حاجی عبد الشکور میں پنہاں تھیں وہ نہ انکے دوستوں میں نظر آتی ہیں اور نہ ہی انکے عزیز و اقارب میں موجود ہیں وہ جذبوں سے سرشار دکھی انسانیت کے خیر خواہ تھے وسعت دستر خواں کے ساتھ ساتھ فیض نوازی بھی ان میں عام تھی غریب کی بھلائی اور اسکی خدمت کا جنوں تھا افسوس کہ وہ ہم سے بچھڑے گئے بے شک وہ ہم میں موجود نہیں لیکن انکی یادیں انکو یاد کرنے پر مجبور کر رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ انسانیت کی بھلائی انسان کو ہمیشہ زندہ کئے رکھتی ہے اور یہی زندگی کی حقیقت ہے کہ آپ کا جانے کے بعد بھی تذکرہ ہوتا رہے تو اس کے لئے دوسروں کا احساس کرنا انکے کام آنا انکی خدمت کرنا بھوکے کو روٹی دینا اور مسائل سے دوچار عوام کے مسائل کو رضا الہی کے لئے حل کرنا آپ کے تا ابد زندہ رہنے کے اسباب کا زینہ ہے شیخ حاجی عبد الشکور تن من دھن کے ساتھ دھرتی کا عاشق اور وطن کی محبت میں سرشار مجاہد تھے وہ دفاع وطن پر معمور افواج پاکستان کے جذبوں کی تحسین کیا کرتے ایسے وقت اور حالات میں جب سیاست کے ناعاقبت اندیش اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہے حاجی عبد الشکور کا دل اہل شہر کے دکھوں اور مصائب پر سراپا احتجاج ریتا اور اسکی سانس دھواں بن کر افق در افق پھیل رہیں تھیں وہ دیکھتا تھا کہ وہ زمین جو خوشنما پرندوں کا مسکن تھی اب مگر مچھوں کی سیرگاہ بن چکی ہے وہ جہاں شہر میں تعلیم، صحت اور کھیل کے میدانوں کا طرف دار رہا وہاں وہ منافقت کی دھند میں اجالوں کی صدائیں لگانے والوں کا آئینہ دار بن کر ظلمتوں سے بھی برسررپیکار رہا بہودہ سرمایہ دارانہ و جاگیردانہ پراگندگی میں وہ رنگ نور کی جگہ ہر سو حبس اور گھٹن کا راج دیکھتا رہا مگر کبھی ناامید نہ ہوا کیونکہ وہ لب آزاد، درویش و قلندر تھا کہ جسے یہ آواز سنائی دیتیں
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
اہل درد اسے درویش کہتے ہیں
اللہ تبارک و تعالی حاجی شیخ عبد الشکور کوجوار رحمت میں جگہ دے اور انکی مغفرت فرمائے جنت الفردوش میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثمو آمین