ایران کا اپنے حق دفاع کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل پر براہ راست حملہ کر کے اپنی دھاک بٹھانا اسرائیل کے لیے گہرا زخم ہے ۔ تاہم اس حملے کو مشکوک بنانے کی کوشش بھی کی گئی جیسے یہ ایک فکس میچ ہو مگر حقائق کا جائزہ لیں تو حقیقت بالکل واضح ہے۔ ویزلی کلارک جو کہ ایک امریکن جنرل ہیں انہوں نے نیٹو کے کمانڈر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بش انتظامیہ کا سات مسلم ممالک شام، لبنان، لیبیا، ایران، صومالیہ اور سوڈان پر حملے کا منصوبہ تھالیکن پھر فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے عراق پر حملہ کیا جائے گا۔ کلارک اس منصوبے کے خلاف تھا، اس نے جارج بش کی سٹیٹ آف دی یونین کی تقریر جس میں “Axis of evilبرائی کا ثلاثہ اتحاد کا پراپیگنڈا کیا گیا۔ جس میں ایران، عراق اور شمالی کوریا کو مورود الزام ٹھہرایا گیا۔ کلارک کے مطابق اس اتحاد میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی تاہم اس نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ایران اور شام دو تنظیموں حزب اللہ اور حماس کو مدد فراہم کرتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ایران مسلک سے بالاتر ہو کر حماس کو مدد فراہم کرتا ہے تو یقینی طور وہ مدد اسرائیل کے خلاف ہے۔ دوسری بات بش انتظامیہ افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد بار بار کیوں ایران پر حملے کی دھمکیاں دیتا تھا اور ’’ایکسز آف ایول‘‘کا راگ الاپ رہا تھا۔ کیا امریکہ اور ایران کی براہ راست کوئی دشمنی تھی یا ایران نے امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچایا تھا؟ ایسا نہیں تھا بلکہ امریکہ ایران دشمنی کی بنیادی وجہ اسرائیل ہے۔ امریکہ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے کیوں خلاف ہے اس کی وجہ بھی اسرائیل۔ اسی طرح عراق پرweapons of mass destructionکا جھوٹا دعوی کر کے حملہ کیا گیا اس کی وجہ بھی اسرائیل کے ہمسایہ میں ایک طاقتور ملک کا ہونا تھا جو مستقبل میں اس کے لیے سیکیورٹی خطرات پیدا کر سکتا تھا۔ اسی طرح افغانستان سے امریکہ کو کیا سیکیورٹی تھریٹ لاحق تھے۔ اس کے پیچھے بھی بنیادی محرکات اسرائیل ہی کے تناظر میں کار فرما تھے۔ گو کہ اس میں صلیبی عنصر بھی شامل تھامگر کرسچن زائنزم کے امریکہ اور برطانیہ کی سیاست میں گہرے اثرات ہیں۔ نوم چومسکی امریکن پروفیسر اس کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایریل شیرون کہتےہیں’’میں آپ کو یہ بات واضح بتانا چاہتا ہوں۔ امریکہ کے اسرائیل پر پریشر سے پریشان نہ ہوں۔ ہم یہودی لوگ امریکہ کو کنٹرول کرتے ہیں اور امریکن یہ جانتے ہیں‘‘۔
ایک سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ایران نے حملے سے 46 گھنٹے پہلے امریکہ اور یورپ کو اعلانیہ بتا دیا تھا کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرنے جا رہا ہے تو اس وجہ سے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو اپنے دفاعی نظام کو بہتر طریقے سے فعال کرتے ہوئے حملہ کو ناکام بنانے میں مدد ملی کہ نوےفیصد ڈرون اور اور میزائل اسرائیل کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے مار گرائےمگر اس طرح کے سوالات اٹھانے سے پہلے ایران کے حملے کے مقاصد کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ کیا ایران واقعتا اسرائیل کو بڑے پیمانے پر نقصان کا خواہاں تھا جس سے ایک بھرپور جنگ شروع ہو جائے۔ ایسا نہیں تھا ایران بھی اسرائیل کا ایک حد تک نقصان چاہتا تھا اس بات کو وہ خود بیان بھی کر چکے ہیں کہ ہمارا مقصد اور ٹارگٹ دفاعی تنصیبات تھی نہ کہ سویلینز اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانا۔ اس حملے سے ایران نے اپنے قومی تشخص کو اجاگر کیا۔ یہ ایک کامیاب نفسیاتی وار فیئر بھی رہا۔ اسرائیل کے ناقابل تسخیر دفاع کا برم توڑ کر رکھ دیا گیا گو کہ اس سے پہلے حماس نے 18اکتوبر کو ایک بہت بڑا دھچکا لگایا ابھی تو وہ زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ نیا زخم سہنا پڑا۔ اب فیس سیونگ کی بات ہو رہی ہےجو کہ نیویارک ٹائمز سے لیک ہوئی ہے۔ اسرائیل نے امریکہ کے ذریعے ایران کو پیغام پہنچایا کہ اسرائیل کو چند حملے کرنے دیں جو کسی شہر پر نہیں ہونگے بلکہ باہر ہونگے جہاں آبادی نہ ہومگر ایران دو ٹوک موقف اپنائے ہوئے ہے اور اس طرح کی کسی بھی گنجائش دینے کو تیار نہیں ہے۔
دوسری طرف امریکہ ابھی نہیں چاہتا کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرے کیونکہ اس طرح جنگ پھیلنے کے خدشات زیادہ ہیں کیونکہ روس ایک واضح موقف اپنائے ہوئے ہےاور ایران کو اس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگلے ہفتے روس کی جانب سے جدید فائٹر جیٹ SU-35 ایران پہنچ جائیں گے۔ یہ امریکی F-35 کے مقابلے کا فائٹر جیٹ ہے جو کہ ایران کے دفاع کو مضبوط کرے گا۔ تو ہم اسرائیل کے ایران پر براہ راست حملے کی امکانات کم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ حملے کے فوری بعد تو بظاہر سخت بیانات دیے گئے مگر اب ایران پر مزید پابندیاں اور پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دلوانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کاٹز نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ کارروائی کرتے ہوئے ایران کو روکے، ورنہ بہت دیر ہوجائے گی اور وقت ہاتھ سے نکل گیا تو حالات پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔ اس نے 32 ممالک پر زور دیا کہ وہ ایرانی میزائل پروگرام پر پابندیاں لگائیں اور پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دیں۔ وزیر خارجہ اب عالمی برادری کو آواز دے رہے ہیں کہ آپ ایران کے خلاف کارروائی کریں۔ عالمی برادری کو آواز دینے کا مطلب ہے کہ اسرائیل خود براہ راست حملہ آور ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ویسے بھی عالمی برادری کا بڑا مہرہ تو امریکہ خود ہے اس نے بھی اسرائیل کو حملہ سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ عالمی صورتحال میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ جس طرح کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور جنگی ماحول پروان چڑھ رہا ہے اس میں دنیا کا مستقبل اب بس جنگیں ہی ہونگی۔