اسلام آباد: رواں مالی سال کے 9 ماہ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی ہدف سے 6700 ارب روپے تک بڑھ گئی جب کہ انکم ٹیکس کی وصولی میں نمایاں اضافہ ہوا، بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کم ہوا، جس سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔جولائی تا مارچ ایف بی آر کی کل وصولیوں میں انکم ٹیکس کا حصہ نمایاں طور پر بڑھ کر تقریباً نصف ہو گیا ہے۔ ایف بی آر کا 9 ماہ کا ہدف 6.707 ٹریلین روپے تھا، عارضی اعداد و شمار کے مطابق، ایف بی آر نے اس عرصے کے دوران 6.71 ٹریلین روپے اکٹھے کیے جو کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔ایف بی آر کے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے 12.7 بلین روپے کی وصولی کے لیے بینک اکاؤنٹس کو ضبط کرنے کے فیصلے نے اسے ہدف سے تجاوز کرنے میں مدد دی۔حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام اور ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ایئرپورٹ اتھارٹی کو 50 ارب روپے کی سالانہ انکم ٹیکس چھوٹ دی لیکن ایف بی آر نے اسے تسلیم نہیں کیا اور ٹیکس ریکوری اسکیم پر کام جاری رکھا۔معاشی استحکام کی طرف بتدریج پیش رفت کے باوجود، پاکستان کو کلیدی ٹیکس، اخراجات اور بیرونی شعبوں میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے، ہول سیل، ریٹیل، تعمیرات اور زراعت اب بھی ٹیکسوں کے لحاظ سے کمزور ترین شعبے ہیں۔ان کم ٹیکس والے شعبوں کا معاملہ آئی ایم ایف کے آئندہ بیل آؤٹ پروگرام میں اٹھائے جانے کا امکان ہے، کیونکہ تنخواہ دار اور کارپوریٹ سیکٹرز پر مزید ٹیکس لگانے کو مزاحمت کا سامنا ہے۔دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف نے ایف بی آر کو ریونیو بڑھانے کے لیے ٹیکس ریفنڈز نہ روکنے کی ہدایت کی جس کے نتیجے میں ٹیکس ریفنڈز میں نمایاں اضافہ ہوا، 9 ماہ میں 369 ارب روپے ریفنڈز کی مد میں ادا کیے گئے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں 45 فیصد زیادہ ہے۔ ایف بی آر نے 3.27 کھرب روپے کا انکم ٹیکس جمع کیا، ہدف 568 ارب روپے تھا، اس طرح گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے انکم ٹیکس کی وصولی میں 41 فیصد اضافہ ہوا۔ اس اضافے کی سب سے بڑی وجہ بینک ہیں، جن کے منافع میں شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے ریکارڈ سطح تک اضافہ ہوا۔