خبر ہے کہ حکمران سورج سے بجلی حاصل کرنے والوں پر بھی ٹیکس عائد کرنے جا رہے ہیں گویا سورج بھی حکومت وقت کی پراپرٹی ہوا جس گھر سے حکومت وقت کو ٹیکس نہ گزارا گیا تو سورج کو اس گھر کو روشنی اور توانائ بخشنے سے روک دیا جائے گا کل حکمران ہوا پر بھی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کر لیں تو انہیں کون روک سکتا ہے ظاہر ہے ہوا جس جسے ہم سانس لے رہے ہیں اور کس کی بدولت ہم زندہ ہیں اس پر بھی ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے ظاہر ہے سورج کی روشنی اور حدت پر ٹیکس رائد کیا جاسکتا ہے تو ہوا پر کیوں نہیحکومت وقت کی جانب سےبجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور بجلی کے بلوں میں 11سے زائد ایسے ٹیکس عوام پر عائد کر دیے گئے ہیں جن کا کوئ جواز ہی نہی بنتا جب بجلی کے بل ادا کرنا عوام کی استطاعت سے باہر ہو گیا اور حکمرانوں کے ان محلات کی زجیر عدل ہلا کر تھک گئے کو ان کے ٹیکسوں سے قائم کیے گئے اور اس مفت بجی سے روشن ہیں جس کے بل وہ ادا کرتے ہیں تو بالآخر عوام نے قدرت کی طرف رجوع کیا اور سورج کا آسرا لے لیا اگرچہ یہ بھی ارزاں نہ تھا سولر پینل کی درامد سے ان کی تنصیب تک کی لاگت پر عوام ہر طرح کے حکومتی ٹیکس ادا کر رہے ہیں لیکن اس سے حکمرانوں کی تسلی نہی ہو رہی تھی اس لیے حلمرانوں کے ملکی اور امپورٹڈ نورتنوں نے اپنی بے مثال حکمت سے یہ نادر تجاویز حکمرانوں کو پیش کیں تو انہیں شرف قبولیت بخش دیا گیا عوام تو وہسے بھی جہل کا نچوڑ ہے تو ان کی فریاد پر کس نے کان دھرنے تھےملک بھر میں اس وقت سولر پینل سے بجلی کی پیداوا تین ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے اور جتنے سولر پینل درامد ہو چکے ہیں ان سے چھ ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے بجلی کے بھاری بلوں سے ریلیف کے لیے عوام بے تحاشا سولر پینل نصب کر رہے ہیں اور جس شرح سے بجلی کے بل عوام پر عائد کیے جارہے ہیں سولر پینل کی تنصیب کی لاگت ایک سے ڈیڑھ سال میں پوری ہو جاتی نو رتنوں کا خیال ہے کہ عوام کی اتنی عیاشیوں کا ملک متحمل نہی ہو سکتا یہ لاگت دس سال میں پوری ہونی چاہیے اسی صورت میں جہاں پناہ کا اقبال بلند ہوگا اور سلطنت ترقی کا ساتواں آسمان چھو لے گی دراصل ان حکمرانوں سے پہلے جو حکمران تھے وہ بھی انہی حکمرانوں کے بھای یا اجداد تھے اور ان کے پاس بھی موجودہ حکمرانوں کی طرح کے نو رتن موجود تھے جو ظل الٰہی کے تاج اور عروج کو دوام بخشنے کے لیے ایسے ہی نادر شاہیشوروں سے نوازتے رہتے تھے انہی مشوروں کے تحت ان حکمرانوں ننے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں آئ پی پیز سے جو معہدے کیے ان کا خمیازہ آج حکمرانوں اور عوام دونوں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے ان معاہدوں کے تحت بجلی کے ریٹ کا تعین بھی ان کی مرضی سے ہوتا ہے اور حکومت ان کو ان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت کے مطابق کیپیسٹی چارجز کی مد میں شاہی خزانے سے رقم ادا کرنے کی پابند ہے باہے یہ بجلی استعمال میں آئے یا نہ آئے کیا یہ آئ پی پیز اپنی صلاحیت کے مطابق پوری بجلی پیدا کر بھی رہے ہیں یا نہی اس کو دیکھنے کے لیے جو نظام ہے وہ بھی دودھ کی رکھوالی پر بلی کو بٹھانے جیسا ہےسولر پینل استعمال کرنے والے جو صارف اب نیٹ میٹر استعمال کر رہے ہیں ان سے جو بجلی حکومت کو جاتی ہے وہ 21 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر جاتی ہے حکومت جو بجلی دیتی ہے وہ کم از کم 40 روپے کے ریٹ پر دیتی ہے اور اس پر فی یونٹ ٹیکس جمع کر لیے جائیں تو یہ 100 روپے فی یونٹ کے قریب بنتا ہے لیکن یہ 21روپے سرکار پر بہت گراں ہیں اس لیے یہ ریٹ کم کر کے گیارہ روپے پر لانے کا۔ فیصلہ کیا گیا ہے اس کا جواز یہ بنایا گیا ہے کہ صادفین جو بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو دے رہے ہیں وہ تقسیم کار کمپنیاں ادا نہی کر سکتیں اس لیے انہیں کم کیا جائے عوام بہت مالدار ہے اور پیسے کی فروانی ہے اس لیے ان کے ریٹ کم کر دیں پاکستان میں بجلی کی کھپت 20 ہزار میگا واٹ تک ہے اور تقسیم کار کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت 32 ہزار میگا واٹ سے زائد ہے اور حکومت اپنے معاہدوں کے تحت آئ پی پیز کو اس پوری بجلی کی قیمت دینے کی پابند ہے لیکن حکومت کو اس سے کوئ فرق نہی پڑتا کیونکہ ان کی محلات مفت کی بجلی سے روشن ہیں اور یہ سارا بوجھ عوام پر بجلی کے بلوں کی صورت میں ڈال دیا جاتا ہے اب اگر عوام سورج سے بجلی حاصل کرنے لگے ہیں تو حکومت کی ادائگیوں کا یہ توازن خراب ہو رہا ہے اس کے زمہ دار عوام نہی بلکہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے آئ پی پیز سے یہ معاہدے کیے لیکن ان خمیازہ عوام اج تک بھگت رہے ہیں اور اب مزید انہی کو خون نچوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہےمناسب امر یہ ہے کہ عوام پر چھری چلانے سے پہلے آئ پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے اور ایسے معاہدے کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے اور اربوں روپے کی جو بجلی اشرافیہ کو مفت دان کی جارہی ہے اسے بند کیا جائے اور بجلی کے بل ان سے بھی وصول کیے جائیں تاکہ ان کو عوام کی تکالیف کا اندازہ ہو۔