گزشتہ دنوں مجھے ایک بڑی کریانہ کی دکان جانے کا اتفاق ہوا تو بڑی حیرانی ہوئی کہ اس نے لکھ کر لگایا ہوا تھا کہ خریدا ہو مال واپس یا تبدیل کرایا جاسکتا ہے اور مال کی واپسی پر کوئی کٹوتی بھی نہیں ہوگی اور مزے کی بات یہ کہ کسی بھی مال کی واپسی پر وجہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔میں نے پوچھا بھا ئی اس دور میں اتنا مشکل کام کیوں کر ہے ہو ؟تو وہ مسکرایا اور کہنے لگا یقین کریں چند ایک کے علاوہ آج تک کوئی بھی خریدا ہو مال واپس کرنے یا تبدیل کرنے نہیں آیا ۔میں نے اپنے سیلزمینوں سے کہا ہوا ہے کہ اگر کوئی ایسا گاہک آئے تواسے میرے پاس لائیں اور بلاکسی وضاحت یا وجہ کے واپسی یا تبدیلی فوری کردیں بلکہ ہدایت ہے کہ اس کی چائےپانی سے تواضع بھی کی جائے۔تقریباََپچھلے دس سال سے کاروبار کر رہا ہوں ،خریدی ہوئی اشیاء کی واپسی یا تبدیلی کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا ۔البتہ میرے کاروبار میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ میں نے اب شہر بھر میں اپنی کئی برانچیں قائم کر لی ہیں ۔میں نے بلا تفریق ہر شخص کے لیے ادھار دینے کی بھی ایک خاص حد مقرر کر رکھی ہے جس کے لیے کسی ضمانت یا تعلق کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ صرف اپنا شناختی کارڈ نمبر یا فون نمبر لکھوا کر یہ سہولت سب کو حاصل ہو سکتی ہے ۔ہماری جانب سے کبھی کسی ادھار دہندہ کو ادائیگی یا واپسی کے لیے نہیں کہا جاتا ۔یہ سن کر آپ کو حیرت ہوگی کہ ننانوے فیصد لوگ باقاعدگی سے اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ باقی ایک فیصد لوگوں کے ادھار کا پرچہ اور ریکارڈ میں ہر تین ماہ بعد ضائع کر دیتا ہوں ۔یہی میری اور میرے کاروبار کی کامیابی کا راز ہے ۔میں نے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ خریدی ہوئی چیز واپس کرنے نہیں آتے ؟ تو جواب دیا کہ میں چیزوں کے معیار ،مقدار اور قیمت میں کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا ۔پھر انہوں نے بیسن کا ایک کلو والا پیکٹ دکھایا اور سامنے ترازو پر رکھا تو مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس کا وزن ایک کلو سے ایک گرام زیادہ تھا ۔اس کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ اگر کوئی خریدار کچھ عرصہ بعد خریدا ہوا مال واپس کر یگا تو اس کو اسکی سابقہ قیمت خرید نہیں بلکہ اگر بڑھ گئی ہے تو موجودہ بڑھی ہوئی قیمت واپس دی جائے گی اوراگر اس مال کی قیمت میں کمی آگئی ہے تو بھی اصل قیمت خرید لازمی واپس ہو گی اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے لیے کسی رسید ،تصدیق یا خریداری کے ثبوت کی ضرورت نہیں چاہیے صرف یہ زبانی طور پر بتانا ہی کافی ہے کہ خریداری ہماری دکان سے ہی ہوئی ہے ۔تجارت ہمارے انبیاء کرام اور نبی پاک ؐ کی سنت ہے اسے ان ہی کے بتائے ٔ ہوئےطریقوں سے کرنا ہی دراصل تجارت یا کاروبار ہے جسے دیانت داری انجام دینے پر عبادت بھی قرار دیا گیا ہے ۔
آج کل تقریباََ ہر دکان پر چند نوٹس بورڈ نمایاں آویزاں نظر آتے ہیں جو فوری انسان کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیںجیسے خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ ہوگا ،ادھار محبت کی قینچی ہے اورفکسڈ پرائس وغیرہ گو ادھار نہ دینے اور فکسڈ پرائس یا قیمت کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن خریدا ہوا مال تبدیل یا واپس کرنا سمجھ نہیں آتا ۔بعض واقعات میں تو خریدے ہوئے مال کی واپسی پر کٹوتی بھی کی جاتی ہے ۔ دکان دار یہ جملے لکھنے کے بعد اور اس پر عمل کرنے کے بعد سوچتے ہیں کہ شاید ہمارے کاروبار کی ترقی ان جملوں میں پوشیدہ ہے اور یہ وہ گر ہے جو ہمیں نقصان سے بچا سکتا ہے اور ہمیں راتوں رات امیر بناسکتا ہے۔ گاہک ایک دفعہ چیز خرید کر واپس نہیں آئے گا اور یوں ہماری تجارت بڑھ جائے گی اور ہمیں کوئی پریشانی بھی نہیں ہوگی ۔جبکہ اسلام کی تعلیمات پر غور کریں تو تجارت میں بھی قربانی اور ہمدردی کے جذبے اجاگر کیا گیا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ خواتین کی عادت کے مطابق ہماری دادی اماں اکثر ہمیں خریداری کے لیے بھجواتی تو ہم بچے اس چیز کو واپس یا تبدیل کرنے کے لیے چکر لگا لگا کر تھک جاتے تھے مگر دکاندار کے ماتھے پر بل نہ آتا تھا ۔ ہم ایک ایک چیز کو کئی کئی دفعہ تبدیل کراتے اور اکثر واپس بھی کردیتے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ جدید دنیا میں دکانوں سے چیزیں خرید کر لوٹانے کا کچھ ایسا رواج چل پڑا کہ دکاندار اس عادت سے تنگ آگئے اور اس طرح کی تحریریں لکھ کر لگانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔یہاں تک کہ خریدی ہوئی ادویات اور انجکشن بھی واپس کرنے والے بےشمار لوگ نظر آتے ہیں جو بچی ہوئی ادویات واپس کرنا چاہتے ہیں مگر میڈیکل سٹور والے قبول نہیں کرتے اور یوں وہ ادویات کے ضائع ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے ۔گو خریدی ہوئی چیز کی واپسی اخلاقََااور تجارتی اصولوں سے مطابقت شاید نہیں رکھتی مگر یاد رہے کہ تبدیلی یا واپسی کی وجہ دیکھنا بھی بے حد ضروری ہے ۔یہ بھی باقاعدہ ایک جرم ہے کہ ناقص مال واپس نہ کیا جائے کیونکہ کنزیومر پروٹیکشن کورٹ کے مطابق ناقص یا غیر معیاری مال واپس ہو سکتا ہے اور تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ البتہ آپ کے پاس خریداری کا ثبوت یا اس کی رسید ضرور ہونی چاہیے ۔شکایت کی صورت میں کنزیومر پروٹیکشن کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے اور اگر خریدار بلاوجہ واپسی یا بار بار تبدیلی کی عادت بنالے تو یہ مناسب نہیں ہوتا لیکن کچھ کٹوتی کرکے کم پیسوں کی واپسی کرنا بھی درست بات نہیں ہوتی ۔میرا ایک میڈیکل سٹور والا دکاندار ادویات کی واپسی اس شرط پر کرتا ہے کہ وہ رقم کی بجائے متبادل ادویات ہی دےسکتا ہے مجبوراََ بلاضرورت بھی کچھ نہ کچھ خریدنا پڑتا ہے ۔ہمیں بھی بلاوجہ خریدی ہوئی چیزوں کو واپس کرنے یا تبدیل کرنے کو عادت نہیں بنا لینا چاہیے بلکہ صرف ضرورت اور مجبوری ہی میں ایساکرنا چاہیے ۔ایسا کرنے کو کاروباری کامیابی سمجھنا بھی درست نہیں ہے ۔
کہتے ہیں کہ ایک صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاایک فرمان سن کر ایک بازار میں دکان کھول لی اور کافی مدت تک دکان داری کرتےرہے ۔اتفاق سے اس دوران کوئی گاہک کبھی کوئی چیز واپس لے کر نہ آیا۔ آخر ایک دن ایک گاہک واپس آیا اور اس نے کہاکہ میں نے آپ سے یہ چیز خریدی تھی،میں یہ واپس کرنا چاہتاہوں۔ وہ صاحب خوش ہوگئے،کہنے لگے لائوبھائی،کیوں نہیں خوشی خوشی وہ چیز واپس کی اور اسکے پیسے واپس کردیئے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے دکان کاسامان کسی دوسرےدکان دار کو فروخت کردیااور اپنی دکان بند کردی۔کسی نے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے ،آخر آپ نے اپنی دکان کیو ں بندکردی ہے ؟ تو وہ کہنے لگے’’جس مقصد کے لیے دکان کھولی تھی،وہ پوراہوگیا ‘‘،لوگوں نے پوچھا:کیامطلب؟ کہنے لگے:’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان سنا تھا کہ جو شخص کسی مسلمان کے خریدے مال کو واپس لےلےتواللہ پاک اس کے گناہ معاف کردے گا ۔بس میں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان سن کردکان کھولی تھی اور لگا انتظار کرنے لگا کہ کب کوئی شخص خریداہوا سامان واپس کرنے آئے اور میں واپس لے کر اس کی رقم اسے دےدوں ۔تقریباایک سال بعد اب ایک گاہک سودا واپس کرنے کیلئے آیاتو میں بہت خوش ہوا کیونکہ اسی مقصد کیلئے تو دکان کھولی تھی لہذا کاروبار کے ساتھ ساتھ زندگی کا مقصد بھی پورا ہوگیا پھر بھلا مجھے اور کیا چاہیے ۔
آج کل کاروبار خصوصی طور پر آن لائن کاروبار منی بیک گارنٹی کی جدید پالیسی پر چلائے جارہے ہیں۔ یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس کا اگر صحیح استعمال کیا جائے تو کاروبار میں اضافے اور نفع کا سبب بن جاتا ہے لیکن مسئلہ تب بنتا ہے جب اس پالیسی کو مکمل طور پر لاگو نہیں کیا جاتا جسکی وجہ سے نقصان کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ۔چنانچہ اس پالیسی کو صیحیح اورمثبت طور پر اپنا کر کاروبار کو بڑھایا جاسکتا ہے ۔آنن لائن بزنس میں یہ اختیار خریدار کو دیا جاتا ہے کہ وہ مال کو دیکھ کر اور اپنی تسلی کے بعد ادائیگی کر سکتا ہے۔تجارت میں نفع کمانے کے ساتھ ساتھ جذبہ ایثار کی اہمیت اور افادیت ہی دنیا وآخرت میں ہماری کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہے ۔ میں نے اپنے پچاس سالہ بینکنگ کیریر میں بےشمار تاجروں کو دیکھا ہے کامیاب وہی رہے ہیں جو مندرجہ ذیل کاروباری حکمت عملی اپناتے ہیں ۔ کاروباری ترقی کا راز ان چند باتوں میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔سب سے پہلے کاروبار کا علم اور تجربہ ، کاروباری نظم و نسق پر کنٹرول ،معیار ،مقدار اور قیمت کا تعین ،کسٹمر کیئریا اپنے گاہک کا خیال رکھنا ،کسٹمر اور گاہک کو ہمیشہ درست سمجھنا ،اپنے کاروبار کا باضابطہ ریکارڈ اور علم رکھنا اور کاروبار میں اپنی دوسروں سے الگ اور منفرد شناخت رکھنا ،عہد اور وعدے کی پاسداری اور پابندی کرنا ، خوش ا خلاقی ،اور جذبہ ایثار اور دیانت داری اپنانا ۔جونہی کسی تاجر نے ان سے کسی ایک سے انحراف کیا اسکی واپسی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔