1۔ بچے کی پکار بابا ، بابا مجھے نکالو کرکنہ کے کنویں سے بچے کی صدائیں۔
2۔ علاقہ زمری میں نوجوان کی دردناک آواز مجھے کیوں قتل کیا جارہا ہے ؟
بلوچستان کےسرحدی پٹی پر کرکنہ تحصیل درگ کے علاقے میں تین سالہ معصوم گزشتہ دنوں صبح 8 بجے پہاڑی کنویں میں گرگیا تھا علاقے میں عدم سہولیات کے سبب اس کے آخری بلوچی زبان کے الفاظ انتہائی دلخراش تھے” جن کا ترجمہ یہ ہےبابا مجھے باہر نکالو” بصد افسوس پچھلے چھتر سالوں سے ضلع موسی خیل میں ہر شعبے میں سہولیات کا فقدان رہا ہے جس بنا پہ قیمتی جانوں کا زیاں ہوتا رہا ہے ، اسی طرح کرکنہ کے علاقے میں بچے کا کنویں میں گرنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کے چھپے رازوں کا سامنے آنا تھا ضلعی انتظامیہ کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی ، اس خبر کا میڈیا پہ وائرل ہونا تھا کہ انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں ۔ بارہ سے پندرہ گھنٹوں کے آپریشن کے بعد بچے کو کنویں سے نکالا گیا تب تک بچہ اس جہاں کی رنگیں کو خیرباد کہہ چکا تھا ۔ ریاستی جبر کے سامنے ماتھا ٹیکنے والے مجبورا ڈی سی کے معطل ہونے کی اپیل بھی نہیں کر سکتے کریں بھی تو کیسے کریں جمہوری نظام میں ایسا ممکن نہیں رہا ۔ ضلعی انتظامیہ سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جبکہ ان کے سینئرز بھی کویٹہ میں انجوائے کررہے ۔کتنے ہی ایسے سیریس معاملات کے وقت انتظامیہ کی اکثریت کویٹہ میں ہوتی ہے ۔کوئی پوچھنے والا نہیں ہے درد آہ وپکار ان والدین کی بے سود ہے جو اپنے لخت جگر کی یہ آواز سنتے رہے کہ بابا مجھے نکالو لیکن نکالنے کیلئے حکومت وقت غائب تھی۔ وزیرِ اعلی بلوچستان میر سرفراز خان بگٹی نے اس سنگینیت میں دلچسپی لیتے ہوئے ناقص کارکردگی پہ فلفور ڈی سی موسی خیل کو معطل کردیا ۔ڈی سی موسی خیل ویسے بھی ضلع سے باہر پائے جاتے ہیں۔ 2۔ مقتول تعویزخان ضلعی انتظامیہ کی بے حسی کی داستانیں چھتر سالوں پہ مبنی ہیں ایک دو دنوں کی بات نہیں ہے ، ضلع موسی خیل کی پسماندہ ترین سب تحصیل زمری پلاسین میں پچھلے ہفتے ایک نوجوان جو والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ، کسی کے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گن پوائنٹ سے چھلنی چھلنی کر دیا ، ورثاء میں بوڑھی ماں کے سوا کوئی نہیں رہا ، درگ سے لیویز فورس کے انچارج نے قدامت پسندی دکھاتے ہوئے ہمیشہ کی طرح جائے وقوعہ پہ پہنچنے میں دیر کر دی ، پہنچتے ہوئے کچھ خاص کاروائی کیے بغیر اپنے فیول پرائس کی ڈیمانڈ کو سامنے رکھتے ہوا فیول کے پیسے چارج کیے اور لواحقین کو کچھ بھی کہے بغیر روانہ ہو گئے تفتیش کرنا بھی گوارا نہ کیا میڈیا پر خبر آنے سے ڈی جی لیویز ایکشن پر دوسرے رسالدار کو چارج دیا اور دوبارہ بھیج دیادوسرے دن لیویز انچارج عبد القیوم نے بوڑھی ماں کے کہ مدیت پہ پھر سے دوبارہ نئے سرے سے مقدمہ درج کر کے تفتیش کا عمل جاری کیا ۔ آخر کب تک ؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ضلعے کا کوئی پوچھنے والا ہے بھی کہ نہیں ہے مزید کتنی قیمتی جانوں کی قربانی دینی پڑے گی ، ضلعی انتظامیہ کو مزید کتنا خون قربانی کیلئے دینا پڑے گا ؟ ضلعی انتظامیہ اپنے حکومت وقت سے مشینری بروقت کیوں نہیں مانگتی ؟ ضلعی انتظامیہ بروقت کسی بھی معاملے میں حصہ کیوں نہیں لیتی ؟ اپنا کردار فعال کیوں نہیں کرتی ؟ ایسے ہزاروں سوالات ذہن میں گردش کررہے ہیں لیکن حرف آخر یہی کہ خواب خرگوش سونے والوں کیلئے سب بے سود ہے ۔