صحافتی فورم اور صحافتی زندگی کے چند پہلو پر دیکھا جائے تو صحافت ایک مقدس پیشہ سمجھا جاتا ہے کچھ لوگ اسے روح کی تسکین سمجھتے ہیں اور کچھ کاروبار کی اکثر و بیشتر دیکھنے میں اتا ہے کہ دودھ بیچنے والے کی موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ پر پریس اور کسی پر صحافت لکھا ہوا ہوتا ہے اگر کوئی ٹریفک اہلکار یا پولیس اہلکار اسے روکتا ہے تو وہ فورا اپنی جیب سے ایک کارڈ نکالتا ہے اور کہتا ہے جناب میں بھی صحافی ہوں پڑھا لکھا نہیں تو کیا ہوا کارڈ تو مجھے مل گیا ہے ایسے ہی بہت سی باتیں سامنے ائیں لکھنے کو جی کیا تو میں نے کہا اج صحافت پر ہی کیوں نہ لکھوں افسوس کہ ہمارے پریس کے ادارے میرا مقصد وہ دفاتر جو اخبارات چلا رہے ہیں ان کو نمائندگی دیتے وقت یہ معلومات تو لے لینی چاہیے کہ ایا نمائندہ بننے والا شخص تعلیم یافتہ باشعور اور اس کی کوئی تعلیمی صنعت بھی ہے اخبار کے متعلق کیا جانتا ہے کیا کبھی اس نے اخبار کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں اس کا کاروبار کیا ہے اور کیا اس پر کوئی ایف ائی ار ہے تو وہ بھی معلومات لینی چاہیے ادارے کو اور پھر جس شہر سے وہ بندہ نمائندہ بننے ایا ہے اس کے متعلق اس شہر کے دیگر صحافیوں سماجی حضرات و تھانے سے بھی معلومات لے لی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اور اگر شہر کا کوئی معتبر شخص اس کے لیے بیان حلفی دے تو اور بھی سونے پہ سہاگہ ہوگا اس سے نہ صرف ادارہ مطمئن ہوگا بلکہ اخبار و چینل سے وابستہ ہونے والے شخص کی معلومات بھی بہتر انداز میں ہوگی کیونکہ صحافت کی اڑ میں چند کالی بھیڑوں نے صحافت جیسے مقدس پیشے کو بدنام کر رکھا ہے موسٹ سینیئر جرنلسٹ جو عرصہ دراز سے اپنی صحافتی خدمات پیش کر رہے ہیں ان کی بھی دل ازاری ہوتی ہے ہمارے صحافتی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے دفاتر کو چاہیے کہ وہ اپنی اخبار و چینل کے بننے والے نماہندے سے متعلق اگائی رکھیں اور ایک فائل سی وی کی صورت میں دفتر میں موجود ہو حالات کا تقاضہ ہے کہ تعلیم یافتہ باشعور اور بہتر صحافتی خدمات دینے والوں کے لیے ایسے عناصر جو صحافت کے نام پر دھبہ ہیں جو صحافت کو محض کمائی سمجھتے ہیں اور اداروں کے لیے بدنامی کا بحث بنتے ہیں ایسے افراد کو صحافتی صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی اگر باہر کر دیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ صحافتی اداب صحافت کو سمجھنے والا ہی سمجھ سکتا ہے—— بڑی دیر سے ہے مشغلہ صحافت میں– کہ جب ہم مریں گے تو بچے جواں ہوں گے۔