میڈی اکھیاں نیراں نیراں!!!

آج ملک کے جو حالات ہیں انہیں دیکھ کر میرا دل بھی کڑھتا ہے ہر اس شخص کی طرح جو درد دل رکھتا ہے اور موجودہ حالات سے پریشان ہے۔آج ملک کا کوئی بھی تو شعبہ ایسا نہیں جسے تسلی بخش قرار دیا جا سکے۔حکومت اپنے انداز سے ملکی حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کوشش کے باوجود عوام کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت اسکا ادراک کرنے سے بھی قاصر ہے یا پھر یہ کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس سے آنکھیں چرا رہی ہے۔عام آدمی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ معیشت کی بحالی کیلئے مشکل فیصلے کرنے ضروری ہیں اور اس خاطر پیٹرول ڈیزل گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانا مجبوری ہے۔عام آدمی کو صرف اور صرف اس بات سے غرض ہے کہ روزمرہ اشیا صرف اور تیل بجلی اور گیس سستی ہوں۔بات بھی کچھ ایسے ہی ہے۔حکومت کی کوششوں کے باوجود مہنگائی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔دوسری طرف حکومت کا چیک اینڈ بیلنس کا شعبہ بھی کچھ زیادہ ہی کمزور ہے۔حکومت کے اقدامات پر عمل درامد کروانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتا ہے لیکن انتظامیہ اپنی روائتی سستی اور کاہلی کی وجہ سے ان پر موثر عمل درامد کروانے سے قاصر ہے کیونکہ انتظامیہ کے افیسران کی اکثریت کرپٹ اور بد عنوان ہے۔معدودے چند افسران جوکہ اچھی شہرت کے مالک ہیں لیکن انہیں یہ بدعنوان عناصر کہیں کسی ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتے اور وہ رولنگ اسٹون کی طرح ادھر ادھر لڑھکتے رہتے ہیں۔انتظامیہ کا سب سے اہم اور بنیادی افسر کسی بھی تحصیل کا اسسٹنٹ کمشنر ہوتا ہے۔سترہویں گریڈ کے اس افسر کو تحصیل میں وائسرا کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔حکومت اسے بڑے بڑے اور چمچماتے ہوئے ویگو ڈالے دیتی ہے جس پہ بیٹھ کر یہ لوگ بلکل ایک وائسرا کی طرح اپنے ٹھنڈے ٹھار اور فرنشڈ دفتروں سے باہر نکلتے ہیں۔ اہلکاران کی فوج ظفر موج انکے آگے پیچھے اور اردگرد ہوتی ہے۔جی حضوری اور چاپلوسی کرنے والے انکی راہوں میں پھول بچھاتے ہو انہیں وزٹ پر لیکر نکلتے ہیں جو ایک آدھ جگہ پہ انہیں سیر سپاٹے کروا کر واپس لے آتے ہیں۔یہ ان افسران کی کارکردگی ہوتی ہے جن پہ حکومت نے تکیہ کر رکھا ہوتا ہے۔نتیجتا“ حکومتی اقدامات ان افسران کی سستی اور نا اہلی کی بناء پر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور جو مقصد ہوتا ہے وہ پورا نہیں ہوتا۔
اس انتظامیہ کی کارکردگی کی بہترین مثال گذشتہ سال کے مفت آٹے اور اس سال کے مفت رمضان نگہبان پیکج کی تقسیم کی ہے۔پورے پنجاب میں اس مفت آٹے کے ہزاروں تھیلے غائب اور ادھر ادھر ہو لیکن انتظامیہ اس پہ قابو نہ پا سکی کیونکہ اس انتظامیہ کے اہلکاران ہی اس میں زیادہ تر ملوث تھے۔اس سال نگہبان رمضان پیکج کیلئے کہا یہ گیا تھا کہ یہ پیکج مستحق افراد کے گھروں تک پہنچایا جائیگا لیکن یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ زیادہ تر جن خوش نصیبوں کو یہ پیکج ملا وہ مستحق اور اہل نہ تھے اور جو اہل اور مستحق تھے وہ اس سے محروم رہے۔دوسری طرف تقسیم کنندگان نے اس بہتی ہوئی گنگا سے خوب خوب اشنان کیا اور بھرے بھرا رکشے کہیں پہ ایسے غائب کیئے کہ دوبارا ان کا سراغ نہ مل سکا۔حکومت نے جتنا بھی پیسہ اس کام کیلئے وقف کیا تھا وہ زیادہ تر ضائع گیا۔نگہبان رمضان کا سات ارب روپیہ جوکہ راشن کی شکل میں لوگوں کے گھروں تک پہنچایا گیا اسکا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔یہ راشن زیادہ تر ان لوگوں کو ملا جو اسکے مستحق ہی نہیں تھے۔اس ضمن میں میڈیا رپورٹس موجود ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کو یہ راشن ملنا چاہیئے تھا بہر حال انہیں نہیں ملا۔تقسیم کرنے والوں نے خوب خوب اس بہتی ہوئی گنگا میں ہاتھ دھو اور اپنے من پسند اور غیر مستحق چاہنے والوں کو نوازتے رہے۔اگر یہ پیسہ عام مارکیٹ میں موجود اشیا صرف پر دیدیا جاتا تو ہر ضرورت مند شخص اپنی ضرورت کے مطابق بڑے سیدھے سبھا طریقے سے اور بغیر کسی الجھن کے خرید سکتا تھا۔اس طرح کرپشن بھی نہ ہوتی اور نہ ہی اس ضمن میں شکایات سننے کو ملتیں۔لیکن حکومت کسی ایسے مشورے پر عمل نہیں کرتی یا پھر یہ کہ سول بیوروکریسی اسے یہ سب کچھ کرنے نہیں دیتی کیونکہ اس طرح شائد اسکے اپنے مفادات پورے نہیں ہوتے۔
میں نے بارہا اپنے کالمز میں لکھا کہ حکومت کے بعض منصوبے ایسے ہیں جو ہمارے ملک کی غالب عوام کو بھکاری بنانے کی طرف مائل کرتے ہیں۔میں نے کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی مثال دی تھی جس کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کیلئے اس سال چار سو پچاس ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے۔اسکے علاوہ ماہ رمضان میں وزیر اعلی!پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کی طرف سے دیا جانے والا نگہبان رمضان پروگرام جس کیلئے سات ارب روپے رکھے گئے تھے۔یہ دونوں ہی پروگرام بظاہر تو غریب پروری ہی خاطر لانچ کئے گئے ہیں لیکن یہ غربت کو ختم کرنے کی بجائے غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا باعث بنے ہیں۔ اب پھر وزیراعلی! پنجاب کی جانب سے”نگہبان کارڈ“ کے اجراء کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت صوبے کے چونسٹھ لاکھ خاندانوں کو ہر تین ماہ بعد بارہ ہزار روپے کی رقم سہ ماہی کی شکل میں سال میں تین دفعہ دی جائیگی جس سے مستحق خاندانوں کی مدد ہو سکے گی۔اسکا حشر بھی وہی متوقع ہے جو قبل ازیں دو اسکیموں کا ہو چکا ہے۔
دوسری طرف آج ہر انسان کی کوشش ہے کہ وہ اپنی محنت و مشقت اور ہاتھ سے کمانے کی بجائے وہ ذریعہ اختیار کرے جس سے اسے کمانے اور کام کرنے کی کوشش نہ کرنی پڑے۔یہ حقیقت ہے کہ آج ہر انسان نے اپنے آپ کو سہیل پسند بنا لیا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسکے اخراجات پورے ہوتے رہیں اور بھی بغیر کسی کوشش یا مشقت کے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں بطور خاص گداگری اور بھکاری پن عروج پر ہے۔ایک مزدور بیچارا سارا سارا دن محنت مشقت سے کام کرتا ہے اور اپنے مالک کی جھڑکیاں سہتا ہے تو تب جاکر شام کو اسے چند روپے بطور مزدوری ملتے ہیں جس سے وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے اور مزدوری والا یہ کام بھی اسے مسلسل اور لگاتار نہیں ملتا۔کبھی کام مل گیا تو شام کو چار پیسے مل گئے اور کام نہ ملا تو بھوکے سونا مقدر ٹھہرا۔ اسکے برعکس ایک بھکاری کسی بھی چوک چوراہے پر کھڑے ہوکر بغیر کسی تکلیف اور مشقت کے کافی ساری رقم اکٹھی کر لیتا ہے۔اب اسے کیا ضرورت پڑی ہے محنت سے کمانے کی۔؟ اسی کو مثال بنا کر دوسرے دیکھنے والے لوگ بھی اسی کام کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں۔یہ سب اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں ہر طرف مانگنے والوں کی لائینیں ہی لائینیں نظر آتی ہیں۔جو مستحق ہیں وہ بھی اور جو مستحق نہیں ہیں وہ بھی اسی لائین میں لگے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ انہیں بغیر کسی محنت کے پیسہ بھی مل جاتا ہے اور کھانا بھی۔
بہتر ہوتا کہ حکومت بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام نگہبان کارڈ یا نقد پیسے دینے کی بجائےان لوگوں کیلئے کسی مناسب کاروباری سرگرمی کا بندوبست کرتی تاکہ وہ خود کمانے کے قابل ہو سکتے۔میں نے پچھلے دنوں کراچی کے ایک سیٹھ کو دیکھا جس نے لوگوں کی مدد کچھ اس طرح کی کہ تقریبا“ ایک سو لوگوں کو فروٹ اور سبزی ریڑھی کی شکل میں کاروبار کرکے دیا جس سے اب وہ خود بھی کمائیں گے اور انہیں مانگنے کی ذلت سے بھی نجات ملے گی۔